تمہارے کاموں کا پورا حساب رکھتے ہیں
ہر اک سوال کا مسکت جواب رکھتے ہیں
سبھوں سے ملتے ہیں ہم اپنے دوستوں کی طرح
کتابِ دل میں محبت کا باب رکھتے ہیں
کچھ ایسے لوگ ہیں دنیا میں آج بھی یارو
"دلوں میں آگ لبوں پر گلاب رکھتے ہیں"
جو کام آسکیں مشکل میں دوسروں کی سدا
کچھ ایسا وصف تو ہم بھی جناب رکھتے ہیں
جو سوئے رہتے ہیں غفلت کی نیند میں اکثر
وہ اپنے آپ کو خانہ خراب رکھتے ہیں
نہ پا سکے کوئی تعبیر ان کی گرچہ ثمؔر
سجا کے پلکوں پہ ہم پھر بھی خواب رکھتے ہیں
سمیع احمد ثمرؔ، سارن ، بہار

223