تمہارے کاموں کا پورا حساب رکھتے ہیں |
ہر اک سوال کا مسکت جواب رکھتے ہیں |
سبھوں سے ملتے ہیں ہم اپنے دوستوں کی طرح |
کتابِ دل میں محبت کا باب رکھتے ہیں |
کچھ ایسے لوگ ہیں دنیا میں آج بھی یارو |
"دلوں میں آگ لبوں پر گلاب رکھتے ہیں" |
جو کام آسکیں مشکل میں دوسروں کی سدا |
کچھ ایسا وصف تو ہم بھی جناب رکھتے ہیں |
جو سوئے رہتے ہیں غفلت کی نیند میں اکثر |
وہ اپنے آپ کو خانہ خراب رکھتے ہیں |
نہ پا سکے کوئی تعبیر ان کی گرچہ ثمؔر |
سجا کے پلکوں پہ ہم پھر بھی خواب رکھتے ہیں |
سمیع احمد ثمرؔ، سارن ، بہار |
معلومات