وہ جو آشنا کہ ابھی ہوے ہیں محبتوں کے سراب سے
|
انہیں واسطہ ہی نہیں پڑا ہے رفاقتوں کے عذاب سے
|
نظر آتی ہیں جو تجلیاں کہ ضیا سے پوچھیں گے پھر بھی ہم
|
جو نکل کے سامنے آیا تو کبھی بادلوں کے نقاب سے
|
تو محبتوں کی نزاکتوں سے ابھی نہیں ہے کچھ آشنا
|
تری نازکی بھی ہے چیز کیا، کبھی تو یہ پوچھ گلاب سے
|
|