Circle Image

Syed Nazakat Hussain Syed

@Nazakatsyed

Syed

رہوں میں کس طرح غافل، محبت اک عنایت ہے
مہک اٹھتی ہے ہر محفل، محبت اک عنایت ہے
بھٹک کر راہِ الفت میں جو پہنچا عشق کی منزل
ہوا خوشبو سے بھی غافل، محبت اک عنایت ہے
چمک اٹھا جو اشکوں سےمرا چہرا بنا کامل
یہی ہے عشق کا حاصل، محبت اک عنایت ہے

0
5
تم اپنے تھے بنے صیاد، گولی کیوں چلائی
مسلماں تھے ہوۓ الحاد، گولی کیوں چلائی
ڈراتے کیوں ہو زنداں سے، اٹھیں گے حق کی خاطر
بتا، کیا ہم نہیں آزاد؟ گولی کیوں چلائی
تڑپتے، ڈھونڈتے پھرتے ہیں اپنوں کے یہ لاشے
ہوۓ سب ہی یہاں برباد؟ گولی کیوں چلائی

0
7
خبر یہ کہیں سے ہَوا لاۓ سیدؔ
کہ پھر ان سے ملنے کے دن آۓ سیدؔ
یہ رشتے یہ ناتے سبھی بھول جائیں
خفا ہو کہ سب سے اُسے پاۓ سیدؔ
اگر مل گئے تم تو پھر کیا کرے گا
تمھیں سوچتے ہی جو شرماۓ سیدؔ

0
9
میں جب مسکرایا تری جستجو میں
تو پھر زخم کھایا تری جستجو میں
ہوۓ ہیں پراۓ پھر اپنے ہی ساۓ
یہی کچھ ہے پایا تری جستجو میں
ہر اک سمت میرے قیامت ہے برپا
یہ کیا میں نے پایا تری جستجو میں

0
14
جہاں کیوں یہ اتنا سہانہ بنایا
مرا دل بھی کیوں یہ دوانہ بنایا
گری بجلیاں ٹوٹ کر پھر اسی دم
کوئی میں نے جب آشیانہ بنایا
نگاہیں لگی تھیں پرندوں کی جس پر
وہی پیڑ تو نے نشانہ بنایا

0
7
عجب ماجرا ہے مرے راستوں کا
نہیں کوئی نام و نشاں منزلوں کا
مری تیز گامی بھی جاری ہے کب سے
ہے قائم مگر سلسلہ فاصلوں کا
وفاؤں کا اک آشیاں ہم بنائیں
چرا لو جو لمحہ کوئی فرصتوں کا

0
10
وطن ہم تجھ کو شانِ جاوداں دیں گے
تری خاطر لہو کیا ہم تو جاں دیں گے
تو ننھی ننھی سی کلیوں کا ارماں ہے
ہماری زندگی کا تو گلستاں ہے
ہماری عزتوں کا تو نگہباں ہے
زمانے بھر کی تم کو عز و شاں دیں گے

0
9
گماں تھا کے بہل جائے گا دل یہ غم چھپانے سے
مرے درد اور بھی بڑھ سے گئے ہیں مسکرانے سے
کرو گے جستجو گر تم ملیں گی منزلیں ورنہ
مقدر مہرباں ہوتے نہیں آنسو بہانے سے
مجھے ایسا لگا ہے لوٹ کر آیا ہے پھر کوئی
یہ جو لگتے ہیں اب بے ربط موسم بھی سہانے سے

0
12
عجب طرح کے یاں نہ دستور ہوتے
تو اہلِ محبت نہ مجبور ہوتے
تری آرزو نے کہاں لا کے چھوڑا
نہ اظہار کرتے نہ مشہور ہوتے
نہ ہم دل لگاتے نہ آنسو چھلکتے
نہ قصے ہمارے یہ مشہور ہوتے

0
9
غلط فہمی کی اک صورت تمھیں بھی ہے ہمیں بھی ہے
کہ اپنے آپ سے الفت تمھیں بھی ہے ہمیں بھی ہے
ہمھاری راہ میں جس جس نے بھی کانٹے بکھیرے ہیں
ہر ایسے شخص سے نفرت تمھیں بھی ہے ہمیں بھی ہے
پریشانی تمھیں ہے یہ کہیں تم کھو نہ دو ہم کو
سو ملتی جلتی اک عادت تمھیں بھی ہے ہمیں بھی ہے

0
7
تمھاری بے حساب الفت سے وہ مشہور ہو جائے
پیار اتنا نہیں کرنا کہ وہ مغرور ہو جائے
محبت ہے تمھیں لیکن خیال اتنا بھی رکھنا ہے
کہیں ایسا نہ ہو یہ دل مرا رنجور ہو جائے
ملے جب وہ تمھیں ہنس کر، تمھیں بھی ہنس کے ملنا ہے
قریب اتنا نہیں آنا کہ پھر وہ دور ہو جائے

0
6
بڑھ گئی ہے بے رخی ،درگزر کریں گے کیا
فاصلے مٹانے کا عہد بھی کریں گے کیا
راستے بدل گئے ہمسفر بچھڑ گئے
دوریاں جو بڑھ گئیں، دل سے ہم کہیں گے کیا؟
جستجو کرو مگر یہ خیال بھی رہے
بجھ گئے ہیں دیپ جو، وہ کبھی جلیں گے کیا

0
8
عجب شخص تھا پر تھا کتنا بھلا سا
رہا پانیوں میں مگر تھا وہ پیاسا
اُسے کون سی محفلیں راس آئیں
جہاں بھر میں تھا جو کہ لگتا جدا سا
وہ مجذوب تھاگر تو مجذوب رہتا
وہ کیوں ڈھونڈتا تھا جہاں میں شناسا

0
7
وہ جو آشنا کہ ابھی ہوے ہیں محبتوں کے سراب سے
انہیں واسطہ ہی نہیں پڑا ہے رفاقتوں کے عذاب سے
نظر آتی ہیں جو تجلیاں کہ ضیا سے پوچھیں گے پھر بھی ہم
جو نکل کے سامنے آیا تو کبھی بادلوں کے نقاب سے
تو محبتوں کی نزاکتوں سے ابھی نہیں ہے کچھ آشنا
تری نازکی بھی ہے چیز کیا، کبھی تو یہ پوچھ گلاب سے

0
7
اے مرے آشنا کہاں ہے تو
عید ہو جائے آ کہاں ہے تو
کچھ گلے شکوے باقی رہتے ہیں
اے سخن آشنا کہاں ہے تو
ایک مدت سے ہجر طاری ہے
وصل کے دیوتا کہاں ہے تو

0
9
قیامت سے پہلے ہی برپا ہے محشر
نہ رک پایا گر ظلم، انجام اَخگر
عدو وار کرتا تو سینے پہ ہوتا
محافظ نے ہی آ کے گاڑھا ہے خنجر
مرے ملک میں راج، دستور کیسا
گریبان محفوظ ہے اور نہ چادر

0
6
غم کی آ غوش میں دن گزر تے گئے
رفتہ رفتہ وہ دل سے اترتے گۓ
بےحسی ، بے کسی کے سوا کیا ملا
جی رہے تھے، مگر ساتھ مرتے گئے
یاد نے تیری میرا سکوں چھینا ہے
عمر بھر زخم دل میں ہی رستے گئے

0
8
زندگی سے گلہ نہیں کوئی
چاہتوں کا صلہ نہیں کوئی
اب بھلا اعتبار کیا کرنا
پہلے جیسا رہا نہیں کوئی
وحشتوں سے تو میں شناسا ہوں
خوف کی اب وجہ نہیں کوئی

0
9
زندگی سے مشورہ ہو جاۓ گا
جینے کا پھر حوصلہ ہو جاۓ گا
مت کرو اتنی محبت اس سے تم
با خدا وہ بے وفا ہو جاۓ گا
مہر ہے کوئی نہ کوئی قہر ہے
کیا خبر تھی سب فنا ہو جاۓ گا

0
3
مجھے صاعقہ نے ڈرایا بہت ہے
مگر راستہ بھی دکھایا بہت ہے
نجانے ہوا کیا مرے دل کو یارو
بڑھا درد تو مسکرایا بہت ہے
بھلائیں بھلا کیسے بیتے دنوں کو
جدائی نے تیری ستایا بہت ہے

0
4
یہاں کون سچی محبت کرے گا
زمانہ بھی کس سے عداوت کرے گا
نہ کر ظلم اتنا کہ ہم سہہ نہ پائیں
یہ دل بھی وگرنہ بغاوت کرے گا
گزرتی ہے اپنی تو فاقہ کشی میں
نہ کائی تری سی خلافت کرے گا

0
4
گزر گیا ہے جفا کا موسم
پلٹ کے آیا وفا کا موسم
خزاں بگاڑے گی کیا ہمارا
چلا گیا ہے بَلا کا موسم
سدا رہے یہ جمال تیرا
یہ کہہ رہا ہے صدا کا موسم

0
5
اپنی قسمت کے اندھیروں کو مٹانا ہوگا
خود چراغِ دل و جاں ہم کو جلانا ہوگا
راستے آندھی و طوفان کی زد میں آئے
اب چراغوں کو ہواؤں سے بچانا ہوگا
دل کے زخموں کو چھپانا نہیں آساں لیکن،
اپنے آنسو کو ان آنکھوں میں چھپانا ہوگا

0
4
چاندنی نے پھر مجھے کتنا ستایا دوستو
درد کا اک چاند جب بھی جگمگایا دوستو
آس ہر اک اس سے ملنے کی بکھر کر رہ گئ
جب مرا سایہ نہ میرے ساتھ آیا دوستو
وہ رہا گمنام جب تک صرف میرا ہی رہا
جب ملی شہرت ہوا پھر وہ پرایا دوستو

0
4
مجھے تم اپنی محفل میں بلا لیتے تو کیا ہوتا
کبھی خوشیوں میں اپنی بھی ملا لیتے تو کیا ہوتا
بھری محفل میں ظالم کیوں مجھے رسوا کیا تو نے
اگر شکوہ تھا خلوت میں ملا لیتے تو کیا ہوتا
بھلا تم بدلیوں میں چاند بن کر یوں چھپے ہو کیوں
چمک کر مہر کی صورت دکھا لیتے تو کیا ہوتا

0
5
سوچتا ہوں کہ میں خواہش سے کنارہ کر لوں
جو ملا ہے مجھے، اُس پر ہی گزارا کر لوں
زندگی بھر کے خسارے کو سہارا کر کے
جو بھی ٹوٹا ہے اُسے پھر سے دوبارہ کر لوں
اپنی تقدیر کے نقشے کو دوبارہ لکھ کر
جو بھی لمحہ ہے ادھورا اسے پورا کر لوں

0
4
میرے دل میں تمھارا گھر ہوتا
میں بھی دنیا میں معتبر ہوتا
سبزہ ذاروں کا جو گزر ہوتا
مست و شاداب یہ نگر ہوتا
کھوۓ رہتے خیال میں تیرے
درد ہوتا تو بے اٹر ہوتا

0
4
تمھیں تھی محبت کسی سے نہ کہنا
یہ جھو ٹی حقیقت کسی سے نہ کہنا
گزاری ہے کیوں تلخ کا می میں ہم نے
تھی اس میں حلاوت کسی سے نہ کہنا
رچا کر محبت کا یوں ڈھونگ سب سے
ملی تم کو شہرت کسی سے نہ کہنا

0
4
نبھاۓ نہیں جاتے رشتے گھروں کے
کریں حق ادا کیسے پھر دوسروں کے
نہ ہم سے حفاظت ہوئی گلستاں کی
ملیں رنگ کیسے گئے موسموں کے
سفر کٹ سکا اور نہ منزل پہ پہنچے
تھے رہبر ہی رہزن مرے قافلوں کے

0
4
تِیرہ شبی میں تاباں ستارا حسینؑ ہیں
مشکل گھڑی میں دیں کا سہارا حسینؑ ہیں
جب دینِ مصطفی کو د ھندلا گیا یزید
تب اس کو خوں سے جس نے نکھارا حسینؑ ہیں
گھائل ہوۓ ہیں جب بھی کسی کربلا میں ہم
اس دل نے بھی جواباََ پکارا حسینؑ ہیں

0
6
ہو چاہے ظلم ہی پل پل محبت اک عنایت ہے
جنوں بولا سرِ مقتل محبت اک عنایت ہے
محبت کر محبت کر محبت ہی عبادت ہے
ملے چاہے نہ اس کا پھل محبت اک عنایت ہے
ہوانے جو سرِ ساحل تمھارا ذکر چھیڑا ہے
مچائی موجوں نے ہلچل محبت اک عنایت ہے

0
7
یاد آتے ہیں ہمیں وعدے نبھانے والے
کیا ہوئے ہجر کی تلخی کو مٹانے والے
واسطہ شہرِ عداوت سے مرا ہے کتنا
بھول بیٹھے ہیں یہاں پیار جتانے والے
اب کہیں چین نہیں، یوں ہی اداسی چھائی
روٹھے ہیں درد کے طوفاں کو بڑھانے والے

0
8
شاید شہادت تھی مری تقدیر میں
پیدا ہوا ہوں اس لیے کشمیر میں
روتی ہے ماں بیٹا مرا آیا نہیں
دیکھے گی وہ صرف اب اسے تصویر میں
عصمت لُٹے پھر بھی خموش انساں ہے کیوں
کچھ مصلحت ہے شاید اس تاخیر میں

0
8