| یاد آتے ہیں ہمیں وعدے نبھانے والے |
| کیا ہوئے ہجر کی تلخی کو مٹانے والے |
| واسطہ شہرِ عداوت سے مرا ہے کتنا |
| بھول بیٹھے ہیں یہاں پیار جتانے والے |
| اب کہیں چین نہیں، یوں ہی اداسی چھائی |
| روٹھے ہیں درد کے طوفاں کو بڑھانے والے |
| ناز کتنا تھا ہمیں ان کی وفا پر لیکن |
| وقت کی موج میں سب چھوڑ کے جانے والے |
| بیچ راہوں کے مجھے چھوڑ دیا ہے آخر |
| بن گئے آج وہ، جیسے تھے زمانے والے۔ |
| ذکر آتا ہے کہیں ترکِ تعلق کا جب |
| یاد آتے ہیں ہمیں ہاتھ چھڑانے والے |
| ہم سفر بھی سرِ منزل ہی جدا ہو جائیں |
| ساتھ چلتے نہیں سب ہاتھ ملانے والے |
| مشکلیں ایسی کہ آساں نہیں ہونے والی |
| یاد آتے ہیں ہمیں زخم بھلانے والے |
| زندگی پھر سے حسیں لگنے لگی ہےہم کو |
| دھوپ میں سایہ بنے، ساتھ نبھانے والے |
| حوصلہ دیتے تھے، کہتے تھے وفا کے قصے |
| کیا ہوئے دل کو بھٹکنے سے بچانے والے |
| ہم سفر جو ملے تجھ کو، وہ ہو تیرے جیسا |
| بیچ راہوں میں مجھے چھوڑ کے جانے والے |
| کتنے ناداں ہیں ترے بھولنے والے سیدؔ |
| خود کو تنہائی کے زنداں میں بسانے والے |
معلومات