غم کی آ غوش میں دن گزر تے گئے
رفتہ رفتہ وہ دل سے اترتے گۓ
بےحسی ، بے کسی کے سوا کیا ملا
جی رہے تھے، مگر ساتھ مرتے گئے
یاد نے تیری میرا سکوں چھینا ہے
عمر بھر زخم دل میں ہی رستے گئے
دامنِ گل کی راحت ہوئی رائیگاں
پھول، خوشبو خزاں میں بکھرتے گئے
جب نہ کچھ بن سکا، تیرے ہی خیال سے
ہجر کی رات میں خواب بُنتے گئے
زندگی، جانے کی اتنی عجلت ہے کیوں؟
بے رخی سے تری گھر اجڑتے گئے
کیا سمٹ پائے، سید بچھڑنے کے بعد
ریت کی طرح ہم بھی بکھرتے گئے

0
8