| گماں تھا کے بہل جائے گا دل یہ غم چھپانے سے |
| مرے درد اور بھی بڑھ سے گئے ہیں مسکرانے سے |
| کرو گے جستجو گر تم ملیں گی منزلیں ورنہ |
| مقدر مہرباں ہوتے نہیں آنسو بہانے سے |
| مجھے ایسا لگا ہے لوٹ کر آیا ہے پھر کوئی |
| یہ جو لگتے ہیں اب بے ربط موسم بھی سہانے سے |
| مرے آلام بڑھتے ہیں تو بڑھنے دو اِنھیں یارو |
| کہ درشن ہم مسیحا کے کریں گے اس بہانے سے |
| کسی بے نام موسم میں ہمیں آواز دے لینا |
| تمھارے درد کم ہوں گے ہمارے پاس آنے سے |
| نظر، دل یا جگر سب کچھ رکھوں میں سامنے ان کے |
| سنا ہے وہ نہیں ہیں چوکتے اپنے نشانے سے |
| کسے اپنا کہیں ہم کون ہے سید یہاں اپنا |
| وہ جن کے نام کی تھی زیست لگتے ہیں بگانے سے |
معلومات