اے مرے آشنا کہاں ہے تو
عید ہو جائے آ کہاں ہے تو
کچھ گلے شکوے باقی رہتے ہیں
اے سخن آشنا کہاں ہے تو
ایک مدت سے ہجر طاری ہے
وصل کے دیوتا کہاں ہے تو
ڈوب جاۓ نہ آس کا سورج
ہو نہ جاۓ خطا کہاں ہے تو
ہجر کے دن کٹے نہیں کٹتے
زندگی غم زدہ کہاں ہے تو
جی نہیں سکتا میں بنا تیرے
ہو گیا فیصلہ کہاں ہے تو
ڈوب جاۓ نہ آس کا سورج
ہو نہ جاۓ خطا کہاں ہے تو
ہجر کے دن کٹے نہیں کٹتے
زندگی غم زدہ کہاں ہے تو
در کھلا دیکھ کر گدا گر نے
دی صدا جا بجا کہاں ہے تو
مانگتے مانگتے تجھے رب سے
ہو نہ جاؤں فنا کہاں ہے تو
زندگی بوجھ ہے بنا تیرے
ہو گئی انتہا کہاں ہے تو
بجھ نہ جائے چراغ الفت کا
آ بھی جا دلربا کہاں ہے تو
ہجر کی رنجشیں مٹانی ہیں
منتظر ہوں ترا کہاں ہے تو
ڈوب جائے نہ یہ سفینہ بھی
اے مرے ناخدا کہاں ہے تو
ہجر کی رات ہے کٹھن سید
مل بھی جا کج ادا کہاں ہے تو

0
9