| وہ جو آشنا کہ ابھی ہوے ہیں محبتوں کے سراب سے |
| انہیں واسطہ ہی نہیں پڑا ہے رفاقتوں کے عذاب سے |
| نظر آتی ہیں جو تجلیاں کہ ضیا سے پوچھیں گے پھر بھی ہم |
| جو نکل کے سامنے آیا تو کبھی بادلوں کے نقاب سے |
| تو محبتوں کی نزاکتوں سے ابھی نہیں ہے کچھ آشنا |
| تری نازکی بھی ہے چیز کیا، کبھی تو یہ پوچھ گلاب سے |
| کبھی چلمنوں سے لپٹ گئ ،کبھی بام و در سے الجھ گئ |
| بڑی بے قرار نظر ہے یہ نکل آ تو اب کے حجاب سے |
| تری یاد رہ نہ جا ۓ یہیں، یہی سوچ کھاتی ہے رات دن |
| مرا اب تو جانے کو جی نہیں کرے ہے جہانِ خراب سے |
| جو ہے اس نے خوشبو دی پھول کو، تو لگائیں اس کو ہیں تہمتیں |
| ترے پاس کیا رہا سید اب جو کہے گا اور جناب سے |
معلومات