مجھے تم اپنی محفل میں بلا لیتے تو کیا ہوتا
کبھی خوشیوں میں اپنی بھی ملا لیتے تو کیا ہوتا
بھری محفل میں ظالم کیوں مجھے رسوا کیا تو نے
اگر شکوہ تھا خلوت میں ملا لیتے تو کیا ہوتا
بھلا تم بدلیوں میں چاند بن کر یوں چھپے ہو کیوں
چمک کر مہر کی صورت دکھا لیتے تو کیا ہوتا
نہیں تھا تل اگر چہرے پہ کاجل ہی سجا لیتے
تم اپنے حسن پہ درباں بٹھا لیتے تو کیا ہوتا
کسے معلوم ہے دل کا کہ اس میں کیا ہے پوشیدہ
فسانہ غم کا میرے تم چھپا لیتے تو کیا ہوتا
نجانے تیرگی میرے مقدر میں لکھی ہے کیوں
تم اپنی یاد کی مشعل جلا لیتے تو کیا ہوتا
غمِ ہجراں میں ہم نے بھی گنوائی ہیں بڑی نیندیں
ہمیں آغوشِ وصلت میں سلا لیتے تو کیا ہوتا
چھلک پڑتی ہیں آنکھیں جب تمھاری یاد آتی ہے
محبت دل سے سید ہم مٹا لیتے تو کیا ہوتا

0
5