اپنی قسمت کے اندھیروں کو مٹانا ہوگا |
خود چراغِ دل و جاں ہم کو جلانا ہوگا |
راستے آندھی و طوفان کی زد میں آئے |
اب چراغوں کو ہواؤں سے بچانا ہوگا |
دل کے زخموں کو چھپانا نہیں آساں لیکن، |
اپنے آنسو کو ان آنکھوں میں چھپانا ہوگا |
خواب جو ٹوٹ گئے ان کو سنبھالیں کیسے؟ |
خود کو گزرے ہوۓ لمحوں میں ہی پانا ہوگا |
خواہشوں کے ہیں پرندے جو ہمارے دل میں |
ان کو آزاد فضاؤں میں اڑانا ہوگا |
یہ جو احساس ہے اب اس کو مٹا کر ہم نے |
خود کو ہر حال میں ہر طور ہنسانا ہوگا |
وقت کی گرد میں سب کچھ ہی چھپا ہے لیکن، |
یاد کی روشنی کو پھر سے جلانا ہوگا۔ |
دل میں جو بوجھ ہے ہلکا نہیں ہوگا شاید |
اپنے غم کو بھی کسی طور چھپانا ہوگا |
زندگی جنگ ہے اور جیت مقدر لیکن، |
حق کے میدان میں خود کو ہی لڑانا ہوگا۔ |
رات کے سائے سے خود کو ہے بچانا ہمدم، |
ہر قدم سوچ سمجھ کے ہی اٹھانا ہوگا |
یاد کے زخم چھپانے نہیں آتے ہم کو، |
ان کو پلکوں سے ہی چھپ چھپ کے اترنا ہو گا |
پیار کے پھول اگر مرجھا گئے موسم سے، |
پھر محبت کو نئے رنگوں میں لانا ہوگا |
راہ دشوار سہی پھر بھی چلیں گے ہم لوگ، |
اپنے قدموں کا نشاں خود ہی بسانا ہوگا۔ |
چاہے طوفان ہو، چپ چاپ نہیں بیٹھیں گے، |
روشنی کے لیے ہر درد جلانا ہوگا۔ |
ہم سے جو دور ہوئے اُن کو بلا کر واپس |
اپنے خوابوں کا جہاں پھر سے بسانا ہو گا |
درد چھپتا نہیں آنکھوں کی زباں سے لیکن، |
پھر بھی دنیا کو ہمیں ہنستے دکھانا ہوگا۔ |
اپنے خوابوں کی ہے تعبیر بھی پانی ہم نے، |
پھر ہمیں خود کو حقیقت سے ملانا ہوگا |
اپنے ہاتھوں سے دیے ہم نے جلائے ہر سو، |
جو بھی بچھڑا ہے اسے پھر سے بلانا ہوگا |
وقت کے وار سے اب ہم کو نہیں گھبرانا، |
اپنی ہمت سے اندھیروں کو مٹانا ہوگا |
جتنے دکھ ہیں انہیں سینے میں چھپا کر سید |
اپنے خوابوں کو حقیقت میں سجانا ہوگا، |
معلومات