Circle Image

Dr. Mubashshir Kanwal

@Mubashshirjamadar

تھمی ہے سانسیں، رکی ہے دھڑکن، گلاب چہرہ مگر کھِلا ہے
یقیں مرا دل کرے تو کیسے، کہ وہ جہاں سے چلا گیا ہے
ہوا کے جھونکوں میں اس کی خوشبو ابھی بھی مہکی ہے گلستاں میں
ابھی بھی وہم و گماں میں اکثر، غزل ہمیں وہ سنا رہا ہے
وہ ظلمتوں کے مقابلے میں کھڑا تھا روشن چراغ بن کر
اسی کے جانے سے ہر مسافر تھکا تھکا سا، بجھا بجھا ہے

0
2
شاعرِ کوکن نعیم پرکار کی رحلت پر تحریر ایک غزل
از: ڈاکٹر مبشر کنول
تھمی ہے دھڑکن، رکی ہے سانسیں، گماں ہے گویا وہ سو رہا ہے
یقین دل کو دِلاؤں کیسے؟ وہ راہِ مُلکِ عدم گیا ہے
ابھی بھی رخ پر وہی تجلی، ابھی بھی تازہ ہے مسکراہٹ
لبوں پہ رقصاں وہی تبسم، وہ گل ابھی بھی کھلا کھلا ہے

0
9
شبنمی لہجہ بھی شعلے میں بدل سکتا ہے
پیاس کا مارا ،سمندر بھی نگل سکتا ہے
ظاہراً برف ہوں، پر مجھ میں تپش ہے ایسی
مجھ کو مت چھو، کہ ترا ہاتھ بھی جل سکتا ہے
خاک میں چھپتی نہیں آہِ ستم دیدہ کبھی
فتح کا جشن بھی زنداں سے نکل سکتا ہے

0
9
شبنمی لہجہ کبھی شعلہ اگل سکتا ہے
مجھ کو نہ چھو کہ ترا ہاتھ بھی جل سکتا ہے
میں ہوں ہیرا، میں نہیں زہر کا پیالہ یارو
جس میں ہمت ہے وہی مجھ کو نگل سکتا ہے
حوصلہ چاہیے اس راہ پہ چلنے کے لیے
یہ ہے الفت کی ڈگر پاؤں پھسل سکتا ہے

0
17
ترانۂ انجمن : ڈاکٹر مبشر کنول مہسلائی
بلبلیں ہم اس چمن کیں ، یہ ہماری جان ہے
عظمتیں اس کی نرالی اور انوکھی شان ہے
۱ـ
علم کے افلاک کا روشن ستارہ انجمن
سارے کوکن کا نمائندہ اِدارہ انجمن

0
11
رہے یاد دنیا کو اپنی کہانی
مٹے نا مٹائے بنیں وہ نشانی
گزاریں ہر اک پل یہاں مسکرا کر
فقط چار دن کی ہے یہ زندگانی

0
10
مناجات : ڈاکٹر مبشر کنول
ہے اعتراف سیا کار ہوں مرے مولا
ترے کرم کا طلب گار ہوں مرے مولا
خطا میں ڈوبا ہوں یارب میں سر سے پاؤں تلک
زمیں پہ جیسے کوئی بار ہوں مرے مولا
تری نگاہ نہ گر ہو تو ٹوٹ جاؤں گا

0
5
پھر دیے جلتے روشنی ہوتی
آنکھ خوشیوں سے شبنمی ہوتی
تیری خوشبو جو لاتی بادِ صبا
دور یک لخت برہمی ہوتی
کاش تم اک جھلک ہی دکھلاتے
شدتِ غم میں کچھ کمی ہوتی

0
21
ایسی ملت جسے سردار نہیں ہوتا ہے
ہے وہ لشکر جسے سالار نہیں ہوتا ہے
اس کی حالت کسی کشتی کی طرح ہے جس میں
رخ بدلنے کوئی پتوار نہیں ہوتا ہے

13
نیزہ اور خنجر و تلوار بہت دیکھے ہیں
دوست کم اور ستم گار بہت دیکھے ہیں
جانے کس کی ہے دعا آج بھی آباد ہیں ہم
ورنہ بربادی کے آثار بہت دیکھے ہیں
حسنِ یوسف کی کسی میں بھی جھلک آ نہ سکی
مصر نے حسن کے بازار بہت دیکھے ہیں

0
15
فردِ ملت جو وفادار نہیں ہوتا ہے
رب کے دربار وہ سرشار نہیں ہوتا ہے
خوف اب دل سے مٹا تو ہے مجاہد حق کا
سرمدِ عشق کو آزار نہیں ہوتا ہے
تندي بادِ مخالف پہ تو حاوی ہو جا
ڈر مجاہد کو سزاوار نہیں ہوتا ہے

0
10
جہاں میں کس نے بھلا مرتبہ یہ پایا ہے
سبھی کے دل میں محمد رفیع سمایا ہے
سدا بہار تری نغمگی ترا انداز
تری صداؤں نے اک نور سا جگایا ہے
جگائی تو نے محبت کی جیوت گیتوں سے
ترے سخن نے عجب انقلاب لایا ہے

0
10
جب کسی قوم کا سالار نہیں ہوتا ہے
یا کہ سردار اثر دار نہیں ہوتا ہے
ٹوٹتی رہتی ہے ہر روز قیامت اس پر
کوئی پرسان و خبردار نہیں ہوتا ہے
ہاں پھنسی رہتی ہے گرداب و بھنور میں ہر دم
ایسی کشتی جسے پتوار نہیں ہوتا ہے

5
283
غزل ۔
غم ہے دریا کہ غم سمندر ہے
اب تو اپنا یہی مقدر ہے
شب کی تاریکیاں مٹانے کو
شمع جلتی رہے تو بہتر ہے
جانے کب آئے رت بہاروں کی

0
14
غزل۔
ہر پَل سُنہرے خواب سجاتا ہے رات بھر
تیرا خیال دل میں سماتا ہے رات بھر
تنہائیوں کے ساز پہ خاموشیوں کا گیت
پُر سوز اِس قدر ہے رلاتا ہے رات بھر
مانا کہ شمع جلتی رہی ہے تمام شب

0
7
واہ! گلزار کی شاعری۔۔۔۔!
ڈاکٹر مبشر کنول
الگ اسلوب ہے ان کا۔۔
سخن کیا خوب ہے ان کا۔۔۔!!
انہیں پڑھ لو کہ سن لو ،بس۔۔
طبیعت مسکراتی ہے!

22
دردِ محبت عاشق اکثر ہنستے ہنستے سہتا ہے
باہر سے ثابت رہتا ہے اندر اندر ڈھہتا ہے
ہر پل اک آہٹ ہوتی ہے ، ہر لمحہ بیتابی ہے
ویرانی دل کی بستی میں کون ستمگر رہتا ہے؟
ناقدری کی اس دنیا میں چاہت کی پہچان کہاں
ورنہ اپنے دل میں یارو پریم کا امرت بہتا ہے

54
ارضِ فلسطین ۔ فریاد
سن مرے کاتبِ تقدیر، ذرا یہ تو بتا؟
کیوں مری ارض پہ یوں آگ برستی لکھ دی؟
ریت قدموں تلے کیوں میرے سرکتی لکھ دی؟
روح تسکین کی خواہش میں، تڑپتی لکھ دی؟
شدتِ پیاس، مرے لب پہ ترستی لکھ دی؟

31
غزل۔
ہر پَل سُنہرے خواب سجاتا ہے رات بھر
تیرا خیال دل میں سماتا ہے رات بھر
تنہائیوں کے ساز پہ خاموشیوں کا گیت
پُر سوز اِس قدر ہے رلاتا ہے رات بھر
مانا کہ شمع جلتی رہی ہے تمام شب

17
سر دے سجدہ دے اور جبیں بھی دے
اور ہے اک ، التجا، یقیں بھی دے
دل میں روشن ہیں آرزو کے چراغ
اس کو ویراں نہ رکھ مکیں بھی دے
قبل اس کے کہ حشر برپا ہو
جس پہ برپا ہو وہ زمیں بھی دے

58
سر دے سجدہ دے اور جبیں بھی دے
اور ہے اک ، التجا، یقیں بھی دے
دل میں روشن ہیں آرزو کے چراغ
اس کو ویراں نہ رکھ مکیں بھی دے
قبل اس کے کہ حشر برپا ہو
جس پہ برپا ہو وہ زمیں بھی دے

0
10