| تھمی ہے سانسیں، رکی ہے دھڑکن، گلاب چہرہ مگر کھِلا ہے
|
| یقیں مرا دل کرے تو کیسے، کہ وہ جہاں سے چلا گیا ہے
|
| ہوا کے جھونکوں میں اس کی خوشبو ابھی بھی مہکی ہے گلستاں میں
|
| ابھی بھی وہم و گماں میں اکثر، غزل ہمیں وہ سنا رہا ہے
|
| وہ ظلمتوں کے مقابلے میں کھڑا تھا روشن چراغ بن کر
|
| اسی کے جانے سے ہر مسافر تھکا تھکا سا، بجھا بجھا ہے
|
|
|