فردِ ملت جو وفادار نہیں ہوتا ہے
رب کے دربار وہ سرشار نہیں ہوتا ہے
خوف اب دل سے مٹا تو ہے مجاہد حق کا
سرمدِ عشق کو آزار نہیں ہوتا ہے
تندي بادِ مخالف پہ تو حاوی ہو جا
ڈر مجاہد کو سزاوار نہیں ہوتا ہے
سرفروشی کی قسم کھا کے پہن لے دستار
کون کہتا ہے عدو خوار نہیں ہوتا ہے
جاں لٹے حق پہ تو ہو جاتا ہے اقبال بلند
مرد مومن کو یہ دشوار نہیں ہوتا ہے
اپنے بازو کی شجاعت پہ بھروسہ رکھ کر
وار کر یہ کبھی بے کارنہیں ہوتا ہے
حق کی باطل پہ ہو یلغار تو نصرت کے لیے
آسمانوں سے بھی انکار نہیں ہوتا ہے
خود اٹھو پہلے کنول گرچہ بدلنا ہے نظام
صرف باتوں سے مرے یار نہیں ہوتا ہے

0
10