جہاں میں کس نے بھلا مرتبہ یہ پایا ہے
سبھی کے دل میں محمد رفیع سمایا ہے
سدا بہار تری نغمگی ترا انداز
تری صداؤں نے اک نور سا جگایا ہے
جگائی تو نے محبت کی جیوت گیتوں سے
ترے سخن نے عجب انقلاب لایا ہے
ترے ہی نام سے روشن چراغ محفل میں
چمن کے پھول نے رنگ سخن چرایا ہے
ترا عروج بلندی تری مقام ترا
ہیں وہ کمال نہ جس کو زوال آیا ہے
ہنر سے اپنے ترنم جگا کے لفظوں کو
زبانِ عام کیا دل نشیں بنایا ہے
غموں کی دھوپ یا چاہت کا دل نشیں مظہر
ہر ایک رنگ بڑے ناز سے نبھایا ہے
حسین رخ پہ نہ چھلکایا تو نے رنج و ملال
گلاب چہرہ ہر اک لمحہ مسکرایا ہے
دلِ مضطر کو تری یاد جب ستائی کنول
مرے لبوں نے ترا گیت گنگنایا ہے

0
10