تھمی ہے سانسیں، رکی ہے دھڑکن، گلاب چہرہ مگر کھِلا ہے
یقیں مرا دل کرے تو کیسے، کہ وہ جہاں سے چلا گیا ہے
ہوا کے جھونکوں میں اس کی خوشبو ابھی بھی مہکی ہے گلستاں میں
ابھی بھی وہم و گماں میں اکثر، غزل ہمیں وہ سنا رہا ہے
وہ ظلمتوں کے مقابلے میں کھڑا تھا روشن چراغ بن کر
اسی کے جانے سے ہر مسافر تھکا تھکا سا، بجھا بجھا ہے
کبھی جو آنکھوں میں خواب رکھ کر، سجایا کرتا تھا کل مناظر
اسی کو نظریں تلاشتی ہیں اسی کو منظر پُکارتا ہے
وہ جس نے لفظوں کو لمس بخشا، خیال کو تازگی عطا کی
قلم میں جس کے تھی روشنی سی ، وہ نور غائب ہے گُم ہوا ہے
یہ خامشی، یہ اداس لمحے، یہ دَر، یہ دالان اور یہ کمرے
چلے بھی آؤ تمہارے بِن اب مکاں یہ سونا سا ہو گیا ہے
تھی اس کے لہجے کی نرمیوں سے دلوں کو راحت، جگر کو تسکیں
بلا کا جادو تھا جس کے سُر میں وہ ساز خاموش ہو گیا ہے
کنول بتاؤ، بھلا زمانہ نعیم جیسا کہاں سے لائے؟
سخن کو تھا ناز وہ سخنور، ہماری محفل سے جا چکا ہے

0
2