غزل ۔
غم ہے دریا کہ غم سمندر ہے
اب تو اپنا یہی مقدر ہے
شب کی تاریکیاں مٹانے کو
شمع جلتی رہے تو بہتر ہے
جانے کب آئے رت بہاروں کی
خار ہر اک، چمن کا خود سر ہے
شور شیوا نہیں شریفوں کا
دھیما لہجہ زباں کا زیور ہے
کیسے فریادِ قتل درج کریں
میرا قاتل مرا ہی دل بر ہے
حرفِ حق کہہ نہیں سکوں لب سے
وقت کچھ اس قدر ستم گر ہے
یہ سیاست کا کھیل ہے یارو
کل جو رہزن تھا، آج رہبر ہے
مدعا کیسے ہو بیان کنول
آج بگڑا صنم کا تیور ہے
▪️ڈاکٹر مبشر کنول

0
14