| نیزہ اور خنجر و تلوار بہت دیکھے ہیں |
| دوست کم اور ستم گار بہت دیکھے ہیں |
| جانے کس کی ہے دعا آج بھی آباد ہیں ہم |
| ورنہ بربادی کے آثار بہت دیکھے ہیں |
| حسنِ یوسف کی کسی میں بھی جھلک آ نہ سکی |
| مصر نے حسن کے بازار بہت دیکھے ہیں |
| تاج سا حسن کسی اور عمارت میں کہاں |
| نگه نے گنبد و منیار بہت دیکھے ہیں |
| راس آئی نہ جنہیں آبلہ پائی یارو |
| ایسے چاہت کے طلبگار بہت دیکھے ہیں |
| شاز و نادر کوئی آتا ہے برے وقت میں کام |
| ورنہ اپنے ہیں بہت یار بہت دیکھے ہیں |
| تختہ دار پہ چڑھتا ہے یہاں کون کنول |
| عشق میں لٹنے کو تیار بہت دیکھے ہیں |
| ::::::::: |
معلومات