شبنمی لہجہ کبھی شعلہ اگل سکتا ہے
مجھ کو نہ چھو کہ ترا ہاتھ بھی جل سکتا ہے
میں ہوں ہیرا، میں نہیں زہر کا پیالہ یارو
جس میں ہمت ہے وہی مجھ کو نگل سکتا ہے
حوصلہ چاہیے اس راہ پہ چلنے کے لیے
یہ ہے الفت کی ڈگر پاؤں پھسل سکتا ہے
آج کا دور عجب ہے یہاں سب ممکن ہے
سوئی کے چھید سے ہاتھی بھی نکل سکتا ہے
شاعری دل کی ہے روداد سنبھل کر ورنہ
رازِ الفت کبھی الفاظ میں ڈھل سکتا ہے
ان کے آمد کی خبر دل کو اچانک نہ بتا
ورنہ خوش ہو کے وہ سینے سے اچھل سکتا ہے
مجھ کو کہنے بھی دے اشعار جنہیں سن کے کنول
ہوش بہکے بھلے ، دیوانہ سنبھل سکتا ہے

0
17