شاعرِ کوکن نعیم پرکار کی رحلت پر تحریر ایک غزل
از: ڈاکٹر مبشر کنول
تھمی ہے دھڑکن، رکی ہے سانسیں، گماں ہے گویا وہ سو رہا ہے
یقین دل کو دِلاؤں کیسے؟ وہ راہِ مُلکِ عدم گیا ہے
ابھی بھی رخ پر وہی تجلی، ابھی بھی تازہ ہے مسکراہٹ
لبوں پہ رقصاں وہی تبسم، وہ گل ابھی بھی کھلا کھلا ہے
کبھی جو آنکھوں میں خواب رکھ کر، سجایا کرتی تھی سب مناظر
وہی نظر اب یہ پوچھتی ہے، ہمارا منظر کہاں گیا ہے؟
اندھیری راہوں کا راہبر تھا، سدا وہ روشن چراغ جیسا
اب اس کے جانے سے ہر مسافت، دھواں ہے، سایہ بجھا بجھا ہے
تھا اس کے لہجے کی نرمیوں میں، دلوں کی تسکیں جگر کو راحت
غضب میں ایسا جلال جیسے، فلک پہ بادل گرج گیا ہے
ہوا کے جھونکوں میں اس کی خوشبو، وہ قہقہے جو فضا میں گونجے
سحر سا برپا کیا تھا جس نے، وہ ساز اب تو تھم گیا ہے
یہ خامشی، یہ اداس لمحے، یہ در، یہ دالان اور یہ کمرہ
چلے بھی آؤ، تمہارے بن اب مکاں یہ سُونا سا ہو گیا ہے
گئے ہو جب سے تو محفلوں میں، نہ رونقیں ہیں نہ رنگ باقی
اگر نہ لوٹو گے تم یہاں پر، ہمارا کیا پھر یہاں رہا ہے؟
قلم تھما کر چلا گیا وہ، خیال ہے منتشر بلا کا
ذہن پریشاں، نگاہ نم ہے، تغزل اب بے قرار سا ہے
کنول بتاؤ! اب اس جہاں میں، نعیم جیسا کہاں ملے گا؟
غزل کو جس پر تھا ناز یارو، وہ اب ہمیں چھوڑ کر گیا ہے

0
9