شبنمی لہجہ بھی شعلے میں بدل سکتا ہے
پیاس کا مارا ،سمندر بھی نگل سکتا ہے
ظاہراً برف ہوں، پر مجھ میں تپش ہے ایسی
مجھ کو مت چھو، کہ ترا ہاتھ بھی جل سکتا ہے
خاک میں چھپتی نہیں آہِ ستم دیدہ کبھی
فتح کا جشن بھی زنداں سے نکل سکتا ہے
آسماں کے یہ ستارے ہیں فقط اک زینت
ایک جگنو بھی اندھیروں کو کچل سکتا ہے
ضربِ گفتار ہے تلوار سے بڑھ کر یارو
پیار کا بول جگر چاک بھی سل سکتا ہے
آج پھر نو جواں گر حق کا پرستار بنا
اپنے کردار سے تاریخ بدل سکتا ہے
شورِ باطل سے صداقت نہیں مر سکتی کنول
حق اکیلا سہی تشہیر بدل سکتا ہے

0
9