| سر دے سجدہ دے اور جبیں بھی دے |
| اور ہے اک ، التجا، یقیں بھی دے |
| دل میں روشن ہیں آرزو کے چراغ |
| اس کو ویراں نہ رکھ مکیں بھی دے |
| قبل اس کے کہ حشر برپا ہو |
| جس پہ برپا ہو وہ زمیں بھی دے |
| اس تلاطم بھرے سمندر میں |
| ہے دعا، موج اِک مَتیں بھی دے |
| دورِ حاضر کے عاشقوں کے لیے |
| اک حسیں ، دلنشیں ، مشیں بھی دے |
| فرطِ الفت سے جب بھی جی چاہے |
| چوم لوں جس کو وہ جبیں بھی دے |
| نوکِ خنجر نظر نہ آئے کنول |
| دستِ دشمن کو آستیں بھی دے |
معلومات