سر دے سجدہ دے اور جبیں بھی دے
اور ہے اک ، التجا، یقیں بھی دے
دل میں روشن ہیں آرزو کے چراغ
اس کو ویراں نہ رکھ مکیں بھی دے
قبل اس کے کہ حشر برپا ہو
جس پہ برپا ہو وہ زمیں بھی دے
اس تلاطم بھرے سمندر میں
ہے دعا، موج اِک مَتیں بھی دے
دورِ حاضر کے عاشقوں کے لیے
اک حسیں ، دلنشیں ، مشیں بھی دے
فرطِ الفت سے جب بھی جی چاہے
چوم لوں جس کو وہ جبیں بھی دے
نوکِ خنجر نظر نہ آئے کنول
دستِ دشمن کو آستیں بھی دے

43