غزل۔
ہر پَل سُنہرے خواب سجاتا ہے رات بھر
تیرا خیال دل میں سماتا ہے رات بھر
تنہائیوں کے ساز پہ خاموشیوں کا گیت
پُر سوز اِس قدر ہے رلاتا ہے رات بھر
مانا کہ شمع جلتی رہی ہے تمام شب
کوئی لہو جگر کا جلاتا ہے رات بھر
چہرہ ترا نظر سے ہٹائے نہ ہٹ سکا
صحراۓ غم سراب دکھاتا ہے رات بھر
کیونکر نہ دل کے حال پہ افسردہ ہو فلک
تنہا غموں کا بوجھ اٹھاتا ہے رات بھر
کتنے حسین خواب حقیقت میں کھو گئے
حسرت سے دل حساب لگاتا ہے رات بھر
چپکے سے آ کے درد کی دہلیز پر کوئی
زخموں پہ پھول لا کے چڑھاتا ہے رات بھر
کوئی تو ہے جو لُوٹ کے نیندیں مری کنول
کرتا ہے بے قرار ، ستاتا ہے رات بھر

2