Circle Image

اباسین سالار شینواری

@AbaseenSalar@20

#Salarshinwari

”غزل“
نہ دلوں میں خلش ہے اور نہ زیست سکوں میں ہے
لبِ قفل ہے اور نہ بغاوت چشمِ خوں میں ہے
دورِ حاضر میں جہد بھی کام نہ آئے گی
ظالم برتر تو سیاست زیرِ زوروں میں ہے
سہتا ہوں، ڈرتا ہوں، روتا ہوں، مرتا ہوں مگر

0
3
“غزل”
اس کی باتوں میں اثر ہے، یہ خبر ہے
آرزوئے دل میں گھر ہے، یہ خبر ہے
میں جہاں جاؤں تو خائف لوٹتا ہوں
میرے جانے میں خطر ہے، یہ خبر ہے
وقت ظالم ہے، مگر میں چپ رہا ہوں

0
5
”غزل”
یہ قول یہ فعل اور یہ تضادات کیا ہے؟
یہ لب، یہ دل اور یہ جذبات کیا ہے؟
ہر شخص یہاں اپنے مفادوں کا پُجاری
یہ ضد، یہ انا اور یہ مفادات کیا ہے؟
لمحوں میں بدل جاتے ہیں انسان کے انداز

0
10
”غزل“
میں ہر اک صدا میں پکارا جاؤں گا تو مارا جاؤں گا
گر میں اس مقتل میں اتارا جاؤں تو مارا جاؤں گا
میں نے کھٹکھا ہے اتنی ہی بار عدالت کے در و بام
گر میں اس در پر دوبارہ جاؤں گا تو مارا جاؤں گا
ہاں! میں شکستہ ہوں تو یہ جانتا میں بھی ہوں اے جانِ جاں

0
9
“غزل”
کتنے مراسم تھے اور کاں تھی جدائی ہماری
ہم گرچہ رسوا ہوئے نا تھی لڑائی ہماری
ہم کو بے نام سمجھ کر یہ اندازہ تیرا
پر ترے دید سے بڑھ کر ہے پرچھائی ہماری
دشتِ سفر میں کبھی ہم نے نہیں دیکھی راحت

0
8
پاؤں میں خاک سجدے میں جبیں ہے
یہاں تختِ نشیں بھی خاکِ نشیں ہے
رازِ ہستی یہی ہے اے دلِ جاں
سب مکانِ مکیں بھی خاکِ مکیں ہے
جس پہ نازاں تھے سب جہاں والے
آخری منزل اُس کی اک زمیں ہے

0
8
”غزل“
وقت ایثار کا گزر گیا ہے
تھا جو نشہ وہ بھی اتر گیا ہے
سمجھا میں جیسے ہم نشیں اپنا
وہ مری ذات سے مکر گیا ہے
تھا جو چہرہ چراغ شب جیسا

0
6
غزل
مر چکا ہے دل مگر زندہ ہوں میں
سانس لیتا ہوں مگر مردہ ہوں میں
نوچتا ہوں روز ہی گوشت اپنا
کیا بتاؤں، کیسا درندہ ہوں میں
نہ ستاتا ہے مجھے دکھ کسی کا

0
8
”غزل“
جان کے بھی انجان ہے تو
واقعی اک نادان ہے تو
سچ تو سارا جانتے ہو
پھر بھی جھوٹا جان ہے تو
جعل سازی تم کرتے ہو

0
8
”غزل“
زمیں سے دیکھتا ہوں میں اُسے جو آسماں میں ہے
مگر کردار نکلا وہ جو اپنی داستاں میں ہے
تمہارے لب پہ کچھ ہے اور دل میں کچھ چھپا رکھا
یہ چالاکی، یہ دوغلا پن تمہارے خاکداں میں ہے
جو سچ کہتا، وہی معتوب ٹھہرا ہر زمانے میں

0
7
"غزل”
نا جانے کب کون کسی کی مدد کرتے ہیں
ہم سے جو ہیں یہاں، وہ تو ہمیں رد کرتے ہیں
دل میں درد چھپائے، ہنستے رہیں ہم اکثر
لوگ کیا جانیں، کب خواب کسد کرتے ہیں
وہ جنہیں ہم نے پکارا تھا خداؤں کی طرح

0
6
”غزل“
یہ جو چراغ ہیں روشن، پیام کے نہیں ہیں
چمک تو رکھتے ہیں، نورِ دوام کے نہیں ہیں
ہر اک درخت پہ بیٹھے ہیں گدھ نقاب اوڑھے
یہ باغ اب کسی بلبل، کلام کے نہیں ہیں
یہاں پہ حاکموں کے خواب سچ تو ہو گئے ہیں

0
9
” غزل “
جلا کے جھوٹ نے سچ کا ہر اک حوالہ بھی
اب اس زمیں پہ نہیں ہے کوئی اجالا بھی
سوال کرنے پہ کٹتے ہیں آجکل چہرے
کہاں بچا ہے کوئی فکر کا حوالہ بھی
ہر ایک بستی میں خاموش عدل بیٹھا ہے

0
7
"غزل“
میرے خوابوں سے ڈرتے ہیں لوگ
اڑتا ہوں تو پر کترتے ہیں لوگ
میں نے قدم رکھا تو روکا مجھ کو
خود اسی راستے سے گزرتے ہیں لوگ
میرے ہونے پہ حیرت ہے ان کو

0
4
"غزل"
بجھ رہے ہیں چراغ اور بجھنا باقی ہے
ہوا کی زد میں ہر خواب آنا باقی ہے
لبوں پہ حرفِ صداقت ہے پر خموشی ہے
ابھی دریدہ دل کا تڑپنا باقی ہے
درد سینے میں ہم نے چھپائے بہت

0
6
"غزل“
یہاں ہر شے بدلتی ہے، یہاں طاقت نہیں رہتی
جہاں میں دائمی کس کی کوئی حالت نہیں رہتی
جہاں بھی تخت سجتے ہیں، وہی مدفون ہوتے ہیں
یہاں شوکت، یہاں دولت، یہاں عظمت نہیں رہتی
نہ ہی ظالم کے سر رہتا ہے زَر و زور کا سایا

0
8
"غزل“
جہدِ مسلسل میں اگر جاں سے ہم مارے جائیں گے
اتنے بزدل ہیں کیا باطل سے ہم ہارے جائیں گے؟
ظلم اگر آئے تو ہم سینہ سپر ہوں گے ضرور
حق کی خاطر لڑتے ہی جاں سے ہم وارے جائیں گے
عشقِ وطن کا جو دعویٰ ہے وہ سچ کر کے دکھائیں

0
8
”غزل“
یہاں تو ہر کوئی زیرِ عتاب رہتا ہے
عجیب ہے وه جو با حجاب رہتا ہے
ہوا کے دوش پہ اُڑتے ہیں سب کے دعوے بھی
مگر زمین پہ جھوٹا ثواب رہتا ہے
یہاں ضمیر کو بیچو تو جاہ و منصب ہے

0
4
”غزل“
تم سے منسوب مری عقل و دانائی بھی
تم کو پہچاننے کی کہاں تھی بینائی بھی
دل کی ویرانی میں مخفی ہے اک یاد تری
چشمِ خوابیدہ میں اب تک ہے رعنائی بھی
تجھ سے بچھڑ کر خلوت کی عادت میں ڈوبے

0
7
"غزل”
میرے حصے میں یار دکھ ہے
خزاں دکھ ہے بہار دکھ ہے
شبِ غم میں چراغ بجھتے
دیا دکھ ہے، شرار دکھ ہے
اتنے زخموں کے ساتھ جینا

0
7
ظلمتِ شب کی تاریکی پہ نظر رکھتے ہیں
دل میں خوف نہیں، سینے میں جگر رکھتے ہیں
تمہیں جو کرنا ہے، کر کے دیکھ لو
ہم اس دور میں بھی جینے کا ہنر رکھتے ہیں
خونی منظر کی دہشت سے ڈرتے نہیں ہیں
خاک سے اٹھتے ہیں اور خود کو شجر رکھتے ہیں

0
12