”غزل“
تم سے منسوب مری عقل و دانائی بھی
تم کو پہچاننے کی کہاں تھی بینائی بھی
دل کی ویرانی میں مخفی ہے اک یاد تری
چشمِ خوابیدہ میں اب تک ہے رعنائی بھی
تجھ سے بچھڑ کر خلوت کی عادت میں ڈوبے
تم سے ملنے پر ہم نے خوشیاں منائی بھی
تیرے جلووں سے مہکتی رہی دل کی زمیں
تجھ سے بڑھ کر نہ ملی ہم کو اپنائی بھی
ہم نے تنہائی میں کچھ خواب بھی ایسے بُنے
کہ مصور نے تصویر هی دل سے بنائی بھی
تیری ہنسی میں تھا خوشبو بھری دنیا کا سفر
پر تیری بات نے دی دل کو شہنائی بھی
سالار اک جبر کی وادی میں بھی ٹھہر نہ سکا
جرأت کے دعوؤں کی داستاں اپنی سنائی بھی

0
7