| "غزل" |
| بجھ رہے ہیں چراغ اور بجھنا باقی ہے |
| ہوا کی زد میں ہر خواب آنا باقی ہے |
| لبوں پہ حرفِ صداقت ہے پر خموشی ہے |
| ابھی دریدہ دل کا تڑپنا باقی ہے |
| درد سینے میں ہم نے چھپائے بہت |
| ادھورے قصے ہیں، خون رونا باقی ہے |
| خموش آنکھوں میں اک جنگ کا نظارہ ہے |
| زباں کٹی ہے مگر کچھ تو کہنا باقی ہے |
| یہ تخت، یہ تلواریں، یہ قانون کی زنجیریں |
| ہر ایک سچ کے گلے ابھی پھندا باقی ہے |
| عدالتوں میں فقط مورخوں کی باتیں ہیں |
| حقیقتوں کا لہو اب بھی بہنا باقی ہے |
| محل کے سائے تلے، قبروں کی قطاریں ہیں |
| ہر اک امید کا نعرہ ابھی دفنا باقی ہے |
| ترے ہونے سے بھی فرق نہیں پڑے گا سالار |
| یہاں ہر اک اک کو بھی ابھی مرنا باقی ہے |
| شاعر: اباسین سالار شینواری |
معلومات