| ”غزل“ |
| یہ جو چراغ ہیں روشن، پیام کے نہیں ہیں |
| چمک تو رکھتے ہیں، نورِ دوام کے نہیں ہیں |
| ہر اک درخت پہ بیٹھے ہیں گدھ نقاب اوڑھے |
| یہ باغ اب کسی بلبل، کلام کے نہیں ہیں |
| یہاں پہ حاکموں کے خواب سچ تو ہو گئے ہیں |
| جو جاگتے تھے وہ سپنے، عوام کے نہیں ہیں |
| نہ کوئی مرہم ہے یاں ، نہ درد کا ساماں |
| یہ زخم میرے بدن کے بھی، کام کے نہیں ہیں |
| لبوں پہ جام، نظر میں دھواں، بدن میں زہر |
| یہ پیالے عشق کے ہیں پر وہ جام کے نہیں ہیں |
| خودی کو بیچ کے جو مانگی گئی ہے شاہی |
| یہ تاج، تخت، وقار، احترام کے نہیں ہیں |
| جو حرفِ حق تھے وہ رسوا ہوئے ہیں گلیوں میں |
| یہ فیصلے بھی اب اک نظام کے نہیں ہیں |
| جہاں میں جھوٹ کے سائے میں پل رہی ہے ہوا |
| یہ دن، یہ رات، یہ موسم، یہ شام کے نہیں ہیں |
| خرید لوٹ کی منڈی سے خوابِ فردا کو |
| مگر یہ خواب تو اہلِ قیام کے نہیں ہیں |
| بدن پہ زخم ہیں سارے زباں پہ خوف کی مہر |
| یہ لوگ اب کسی بھی انتقام کے نہیں ہیں |
| جو سر اٹھے تھے وہ نیزوں سے وار دیے |
| یہ لوگ اب کسی امن و سلام کے نہیں ہیں |
| نماز، روزہ، اذانیں تو رہ گئی ہیں مگر |
| دلوں کے زاویے اب التزام کے نہیں ہیں |
| کہا جو کچھ بھی وہ سچ، صرف ہم نے کہہ ڈالا |
| سو ہم اب ان کی محفل میں، عام کے نہیں ہیں |
| بساطِ فن پہ جو بکتے رہے ہر اک سالار |
| وہ اہلِ ذوق نہیں، وہ کلام کے نہیں ہیں |
| شاعر: اباسین سالار شینواری |
معلومات