| "غزل” |
| نا جانے کب کون کسی کی مدد کرتے ہیں |
| ہم سے جو ہیں یہاں، وہ تو ہمیں رد کرتے ہیں |
| دل میں درد چھپائے، ہنستے رہیں ہم اکثر |
| لوگ کیا جانیں، کب خواب کسد کرتے ہیں |
| وہ جنہیں ہم نے پکارا تھا خداؤں کی طرح |
| اب ہماری ہی دعاؤں کو فقط رد کرتے ہیں |
| راستے دُکھ کے ہوں یا خواب کے رستے ہوں |
| لوگ ملتے ہیں مگر دل کو فقط زد کرتے ہیں |
| خود نمائی کے زمانے میں کیسے پروا ہے |
| جو سچائی سے چمکے، اُسے ہی بد کرتے ہیں |
| وقت کے ساتھ بدل جاتے ہیں چہرے سب کے |
| جو کبھی اپنا تھا، اب دل پہ سند کرتے ہیں |
| ہم نے ہر موڑ پہ رکھا ہے بھروسہ اُن پر |
| اور وہ ہر بار نئی کوئی حد کرتے ہیں |
| چاہتیں، قربتیں، سب افسانے ٹھہرے سالار |
| اب تو سائے بھی ہر اک قد کا نقد کرتے ہیں |
| شاعر: اباسین سالار شینواری |
معلومات