”غزل“
یہاں تو ہر کوئی زیرِ عتاب رہتا ہے
عجیب ہے وه جو با حجاب رہتا ہے
ہوا کے دوش پہ اُڑتے ہیں سب کے دعوے بھی
مگر زمین پہ جھوٹا ثواب رہتا ہے
یہاں ضمیر کو بیچو تو جاہ و منصب ہے
خرید لو تو بڑا کامیاب رہتا ہے
کوئی چراغ سرِ بام جل نہ پائے گا
ہوا کے بیچ میں جو آفتاب رہتا ہے
وہ ایک شخص جو طوفان میں بھی ہنستا ہے
ازل سے صبر کا اک انتساب رہتا ہے
ہزار زخم سہے پر کبھی نہ ہارا وہ
جو دل کے زخم کا خود احتساب رہتا ہے
غریب شہر کا غم چپکے چپکے سہتا ہے
امیرِ وقت جو بے انتساب رہتا ہے
اگر کہوں کہ سزا وار ٹھہرا میں اکثر
یہ شہر جھوٹ کا حد سے شباب رہتا ہے
میں اپنے دل کی کیسے گواہی سن لیتا
کہ حرفِ حق ہی ہمیشہ خراب رہتا ہے
تری نگاہیں جو بکھری ہوئی سالار
مگر نظر میں کوئی انقلاب رہتا ہے

0
4