| ” غزل “ |
| جلا کے جھوٹ نے سچ کا ہر اک حوالہ بھی |
| اب اس زمیں پہ نہیں ہے کوئی اجالا بھی |
| سوال کرنے پہ کٹتے ہیں آجکل چہرے |
| کہاں بچا ہے کوئی فکر کا حوالہ بھی |
| ہر ایک بستی میں خاموش عدل بیٹھا ہے |
| لگا چکا ہے گواہی کو کوئی تالا بھی |
| نماز، روزہ، صداقت سبھی تو ہیں باقی |
| مگر دلوں میں نہیں وہ خدا کا جالا بھی |
| قلم جو بولے تو گردنیں اترتی ہیں |
| تو حرفِ حق کے مقدر کا اک ازالہ بھی |
| نظر میں دھند، فضا میں شکستگی ہر سو |
| چراغ جلتا لیکن نہیں ہے رکھوالا بھی |
| خودی کے مول پہ شاہی خریدنے والے |
| نہ جان پائے عزت کا اک نوالہ بھی |
| یہ سالار ہے، سچ لکھتا ہے لہو سے مگر |
| قبول کرتے نہیں اس کا مشورہ بالا بھی |
| شاعر: اباسین سالار شینواری |
معلومات