| “غزل” |
| کتنے مراسم تھے اور کاں تھی جدائی ہماری |
| ہم گرچہ رسوا ہوئے نا تھی لڑائی ہماری |
| ہم کو بے نام سمجھ کر یہ اندازہ تیرا |
| پر ترے دید سے بڑھ کر ہے پرچھائی ہماری |
| دشتِ سفر میں کبھی ہم نے نہیں دیکھی راحت |
| خواب کی وادی میں بکھری رہی تنہائی ہماری |
| کون ہمارے لیے رکتا ہے رستے میں اب |
| ہر کوئی لے کے گیا ساتھ برائی ہماری |
| ہوگئے بند تمام علم کے دروازے یاں |
| جہل کے ہاتھوں میں رہتی ہے پڑھائی ہماری |
| عدل کے نام پہ برپا ہے تماشا ہرسو |
| کب مٹے گی یہ نقابوں کی ہرجائی ہماری |
| خون کے سود سے چلتی ہے سیاست سب کی |
| کون سنے گا اب غرباں کی دہائی ہماری |
| رنگ، نسل، مسلک کے جھگڑوں میں الجھی ہے قوم |
| کھو گئی باہمی الفت کی گہرائی ہماری |
| کیا لکھیں حرفِ وفا خون کے داغوں پر ہم |
| وقت نے لوٹ لی ہے عمربھر کمائی ہماری |
| جو ہے سچ لکھ دے دیوارِ ستم پر سالار |
| کل کو پڑھ لے گا خلقِ خدا، یاد آئی ہماری |
| شاعر: اباسین سالار شینواری |
معلومات