”غزل“
میں ہر اک صدا میں پکارا جاؤں گا تو مارا جاؤں گا
گر میں اس مقتل میں اتارا جاؤں تو مارا جاؤں گا
میں نے کھٹکھا ہے اتنی ہی بار عدالت کے در و بام
گر میں اس در پر دوبارہ جاؤں گا تو مارا جاؤں گا
ہاں! میں شکستہ ہوں تو یہ جانتا میں بھی ہوں اے جانِ جاں
گر میں یہ مان کر ہارا جاؤں گا تو مارا جاؤں گا
میں نےہر موج کو یوں اپنے سینے سے لگا رکھا ہے
گر میں طوفاں سے کچھ کنارہ جاؤں گا تو مارا جاؤں گا
کارواں کو جو کاٹنے نکلے ہیں کتے یہاں کے اے دوست
گر میں اب رستے سے گزارا جاؤں گا تو مارا جاؤں گا
کھینچتے ہیں آپس میں ٹانگیں یہاں اک دوسرے کے ایسے
گر میں محنت سے نکھارا جاؤں گا تو مارا جاؤں گا
میں نے دیکھا ہے زہر ہلاہل بھر کر، رکھ دیے جام پہ جام
گر میں یوں زہر کو گوارا جاؤں گا تو مارا جاؤں گا
میں نے ہر گھاؤ کو بھی یوں اپنے بدن پہ سجا رکھا ہے
گر میں ہی داغ کو ابھارا جاؤں گا تو مارا جاؤں گا
میں نے جلتے ہوئے صحرا میں امید بوئی ہے سالار
گر میں بھی خواب کو سنوارا جاؤں گا تو مارا جاؤں گا

0
9