غزل
مر چکا ہے دل مگر زندہ ہوں میں
سانس لیتا ہوں مگر مردہ ہوں میں
نوچتا ہوں روز ہی گوشت اپنا
کیا بتاؤں، کیسا درندہ ہوں میں
نہ ستاتا ہے مجھے دکھ کسی کا
کیسے مانوں، خدا کا بندہ ہوں میں
آئینہ تکنے سے ڈرتا ہوں اکثر
اپنے سائے سے بھی شرمندہ ہوں میں
پھر بھی لوگوں میں بڑا اچھا ہوں میں
کیا تماشا ہوں، کیا ہی دھندہ ہوں میں
بات کرتا ہوں فقط سچ کی مگر
جھوٹ سے بندھا ہوا پھندا ہوں میں
کہنے کو ہوں میں سالار
سچ میں لرزتا پرندہ ہوں میں
اباسین سالار شینواری

0
8