| "غزل“ |
| یہاں ہر شے بدلتی ہے، یہاں طاقت نہیں رہتی |
| جہاں میں دائمی کس کی کوئی حالت نہیں رہتی |
| جہاں بھی تخت سجتے ہیں، وہی مدفون ہوتے ہیں |
| یہاں شوکت، یہاں دولت، یہاں عظمت نہیں رہتی |
| نہ ہی ظالم کے سر رہتا ہے زَر و زور کا سایا |
| یہاں ہر جبر کی بھی کوئی وہ حرمت نہیں رہتی |
| بڑا ہو کے بھی جب انسان حد سے بڑھ کے چلتا ہے |
| تو اس کی سرکشی کو بھی کوئی مہلت نہیں رہتی |
| یہاں شہرت کے میلے بھی بکھر جاتے ہیں پل بھر میں |
| یہاں کچھ بھی کسی کے نام کی نسبت نہیں رہتی |
| سنبھل جا اے دلِ مغرور، یہ دنیا کا ہے دستور |
| کہ دنیا میں کسی شے کو بھی وہ قدرت نہیں رہتی |
| ہزاروں سال کے افسانے جب گردش میں آتے ہیں |
| تو شاہنشاہوں کے کتبوں کی بھی وہ عبارت نہیں رہتی |
| تجھے جو آج حاصل ہے، وہ کل کی بات بن جائے |
| یہاں قسمت، یہاں تدبیر، یاں نیت نہیں رہتی |
| یہاں سالار نے دیکھا سکندر بھی ہوئے رسوا |
| یہاں تخت و کلاہ و تاج کی عزت نہیں رہتی |
| شاعر: اباسین سالار شینواری |
معلومات