| پاؤں میں خاک سجدے میں جبیں ہے |
| یہاں تختِ نشیں بھی خاکِ نشیں ہے |
| رازِ ہستی یہی ہے اے دلِ جاں |
| سب مکانِ مکیں بھی خاکِ مکیں ہے |
| جس پہ نازاں تھے سب جہاں والے |
| آخری منزل اُس کی اک زمیں ہے |
| جس کو دیکھا ہے تخت پر بیٹھے |
| وقت آنے پہ اُس کا کیا یقیں ہے |
| نقدِ ہستی ہے چند سانس کا دم |
| پھر نہ کوئی قریں نہ دورِ قریں ہے |
| تخت و تاج و لباسِ فاخرہ سب |
| چند لمحوں میں مٹھی بھر زمیں ہے |
| کس کا دعویٰ ہے جاوداں رہنے |
| زندگی کا یقیں بھی وہمِ یقیں ہے |
| موت سب کو جھکا ہی دیتی ہے سالارؔ |
| کیا امیر اور کیا فقیرِ غمگیں ہے |
معلومات