ظلمتِ شب کی تاریکی پہ نظر رکھتے ہیں
دل میں خوف نہیں، سینے میں جگر رکھتے ہیں
تمہیں جو کرنا ہے، کر کے دیکھ لو
ہم اس دور میں بھی جینے کا ہنر رکھتے ہیں
خونی منظر کی دہشت سے ڈرتے نہیں ہیں
خاک سے اٹھتے ہیں اور خود کو شجر رکھتے ہیں
کوئی طوفان ہو، آندھی ہو، بھنور ہو یا قفس
ہم تو ہر حال میں پرواز کا پر رکھتے ہیں
سنگ دل وقت کے ہر زخم کو سہتے ہیں مگر
دل میں ہم آج بھی الفت کا گہر رکھتے ہیں
زخم کھاتے ہیں مگر صبر کی چادر اوڑھے
لب پہ شکوہ نہیں، آنکھوں میں اثر رکھتے ہیں
ہم فقیروں کی بھی پہچان ہے محفل میں "سالار"
ہم سخن میں بھی وقار و جلوۂ دَر رکھتے ہیں
اباسین سالار شینواری

0
12