| ”غزل“ |
| زمیں سے دیکھتا ہوں میں اُسے جو آسماں میں ہے |
| مگر کردار نکلا وہ جو اپنی داستاں میں ہے |
| تمہارے لب پہ کچھ ہے اور دل میں کچھ چھپا رکھا |
| یہ چالاکی، یہ دوغلا پن تمہارے خاکداں میں ہے |
| جو سچ کہتا، وہی معتوب ٹھہرا ہر زمانے میں |
| یہاں ہر جھوٹ بھی رہتا عزازِل کے نشاں میں ہے |
| بڑھا ہے خوف کا سایا، نگاہیں بولتی کم ہیں |
| یہ چپ بھی اک بغاوت کی طرح ہر اک زباں میں ہے |
| دھوئیں سے لپٹی تصویریں بتاتی ہیں کہ ماضی بھی |
| کسی معصوم کی آہوں کا سایہ کارواں میں ہے |
| جو آئینے دکھاتے ہیں، وہی پتھر بھی کھاتے ہیں |
| یہ رسمِ سنگ باری اب ہمارے کہکشاں میں ہے |
| گماں کی دھند میں اکثر یقیں بھی مر گیا خاموش |
| حقیقت اب کسی مقتل کی سوگندہ اذاں میں ہے |
| تاریخ کے ہر اک ورق میں یہ حقیقت ہے عیاں |
| یہاں جو زر رہا وہ زیر اس گلستاں میں ہے |
| عدالت چپ، گواہی مصلحت کی آڑ میں ہے |
| جکڑی ہوئی قوم کا سالار ابھی زنداں میں ہے۔ |
| شاعر: اباسین سالار شینواری |
معلومات