Circle Image

Waqas Ahmed

@MalikWaqas7

دوست دارد یار این آشفتگی

اب بھی دھڑکن میں ترا درس کہیں باقی ہے
اور دہن پر وہ ترا لمس کہیں باقی ہے
اب بھی آتی ہے تری خوشبو مرے پہلو سے
آج بھی مجھ میں ترا لمس کہیں باقی ہے
اب بھی سوتے میں ہڑبڑا کے میں اٹھ جاتا ہوں
اب بھی یادوں کی تری حبس کہیں باقی ہے

0
33
بے باک محبت کی قسمت میں ہی مرنا ہے
معصوم ہے دل جو بھی آخر وہ بکھرنا ہے
افراطِ صنم سے ہے کچھ بھی تو نہیں حاصل
حاصل ہے جو کچھ بھی وہ بھی تو بچھڑنا ہے
بھاگے ہی چلو لوگو! اس زیست کے رستے پر
رکنا یہاں غلطی ہے چلنا ہی ابھرنا ہے

0
32
مرے کو گھر ہے یہ قیدِ زنداں
عجیب حسرت سے دیکھتا ہوں
ہے در سے دوجے کی پاسے جو بھی
میں اس کو حیرت سے دیکھتا ہوں
یہ چلتے پھرتے یہ ہستے گاتے
یہ چینخوں کی جو تھاپ پر ہیں

69
ضبطِ دل آنکھ سے محسوس بھی ہونے ناں دیا
"عشق میں غیرتِ جذبات نے رونے ناں دیا"
زندگی غیر سی ناراض سی ہم سے ہے رہی
زندگی نے ہمیں اک خاب بھی دوھنے ناں دیا
ملتفت ہو رہی تھی روشنی میری بھی طرف
ہم نے بدنام پے ظلمات کو ہونے ناں دیا

0
45
اپنی تمام ہو گئی حسرت مبارکاں
آئی وصال و ہجر کی ساعت مبارکاں
موسوم ہو گئی ہے یہ آشوب سے نگہ
چہرے تمام ان کے، علالت مبارکاں
فرصت سے دیکھ لیتے ہیں ہم ان کو اوٹ سے
آنکھیں ہیں دل سے کہہ رہیں صحبت مبارکاں

168
رات کی کالی بے انت فوجیں شام پہ حاوی ہونے کو ہیں
شام کے پنچھی دور گھروں سے ٹوٹے پروں سے رونے کو ہیں
ظلمتِ شب ہے اور بے سبب ہے کیوں اور ہم کیسے مانیں
دیکھو تو شمع بھی بجھ گئی ہے اور جگنو بھی کھونے کو ہیں
تنہائیاں ہیں شب کے اندھیرے گم ہیں سویرے ہمدم میرے
برباد بیٹھے ہیں ہم اکیلے دل جاں جگر سب سونے کو ہیں

38
ہم کو معصوم کار لگتے ہیں
پر وہ سانپوں کے یار لگتے ہیں
ان سے کیا شکوہ بھی کریں گے ہم
وہ تو خود شاہِ دار لگتے ہیں
ارے وحشت میں آ کے دیکھ کبھی
شبنمی ریگ زار لگتے ہیں

51
پھر یوں ہوا کے دفعتاً ہم ناں رہے ہم کھو گئے
اک اجنبی سا لفظ ہی تو ہو گئے ہاں ہو گئے
تھے رات بھر کے رتجگے میری جاں! تیرے پہلو میں
اب تنہا سرِ شام ہی ہم روتے روتے سو گئے
اے قاصدا نا دیر کر لا خط مرے محبوب کا
میں کب تلک تنہا رہوں وہ نقش سب ہی دھو گئے

0
59
یار سے مل کے خوب روئیں گے
گرد آنکھوں کی رو کے دھوئیں گے
ہر طرف ہے یہ کیسا واویلا
مسترد پیشوا جی ہی ہوئیں گے
آنکھیں تاروں میں کھوئی رہتی ہیں
آسماں صاف ہو تو سوئیں گے

56
گومگو کے ہجوم میں پکا بنا ہوا ہوں میں
ابلکوں کے ہی واسطے شیشہ بنا ہوا ہوں میں
تار یہ میرے ذہن کے الجھے ہیں اس قدر کہ اب
تاروں سے اک جہان کا نقشہ بنا ہوا ہوں میں
دنیا یہ مشکبو نہیں، خم نہیں و سبو نہیں
دنیا کی تلخ گود میں بچہ بنا ہوا ہوں میں

32
آج دل کو سکوں مل گیا ہے
یارِ من سے فسوں مل گیا ہے
ان کی خاہش وفا ہو گئی ہے
ایک عالم نگوں مل گیا ہے
ہم نے چاہا تو تھا غم ملے نا
اور وہی ہم کو یوں مل گیا ہے

101
ہم کو منظور ہے رونا تو ملاقات نا کر
ہم سے ناراض ہی رہ ہم سے کوئی بات نا کر
تجھ سے منسوب مکمل تو مری ذات نا کر
بے سبب ہم پہ تو اپنی یہ عنایات نا کر
گرد اڑتی ہے مری ذات کے ہر پہلو سے
مرے نزدیک نا آ قصدِ مساوات نا کر

28
دوبدو بات ہو، بات ہو رات ہو، رات ہی رات میں ساری طے بات ہو
دن چڑھے جو اٹھیں کسمساتے ہوئے مسکراتے ہوئے ہات میں ہات ہو
کب تلک ہم جئیں اس جہاں کے لیے، ہات دیکھو بندھے ہیں خدا کے لیے
گفتگو جو کریں ہم گھڑی دو گھڑی، وہ گھڑی دو گھڑی پیار کی بات ہو
کوبکو پھیلی ہو عشق کی داستاں، داستاں یہ ہماری ہر اک گام ہو
اوجِ افلاک پر بات اپنی چلے، جھومیں گائیں فرشتے تو کیا بات ہو

78
یہ حلقوں زدہ نحیف آنکھیں
اجڑے لہجے ضعیف سانسیں
دل سے میرے چمٹ گئی ہیں
یہ کچھ کالی کثیف یادیں
یہ لوگ انھوں کا دین دنیا
ہیں بے ہودہ رذیل باتیں

39
پیار کی رت میں وصال راتیں گھر میں میرے مہکتی ہیں
فاختائیں یہ فرحتوں کی میرے آنگن میں کوکتی ہیں
چاند راتوں میں چھپ کے دیکھے ہے ترے چہرے کی روشنی کو
کرنیں سورج کی تڑکے تڑکے پاؤں ترے چومتی ہیں
اٹھا دی نظریں جس جانب اس جانب سویر کر دی
حشر ہو گا وہ بدنِ مخمل کہ آنکھیں جس کی روشنی ہیں

77
زمانے کی ہر اک خوبی سمٹ کر آ گئی مجھ میں
جو اپنے ہاتھ کی ریکھا میں تیرا عکس دیکھا ہے
بہت تنہائی میں خود کو پہن کر پاؤں میں بیڑی
تمہاری ذات کی محفل میں محوِ رقص دیکھا ہے

46
غم کے مارے اداس بیٹھے ہیں
ہم تمہارے اداس بیٹھے ہیں
جینے دے ہم کو اے زمانے تو
ہم بے چارے اداس بیٹھے ہیں
رت بدلنے کا ہے یہ وقت نہیں
کیوں نظارے اداس بیٹھے ہیں

60
شمع جب ہم پہ طنز کرتی ہے
رونقِ رات اور بڑھتی ہے
کوکتے ہم ہیں بیٹھ راتوں کو
لب پہ آ کر کے جاں پلٹتی ہے
ہم نے تاروں کے تار چھیڑے ہیں
چاندنی ہم سے بات کرتی ہے

94
وہ سردیوں کی لمبی کہر آلود راتوں میں گھر کی منڈیر پہ بیٹھی
میرے خیالوں کو دوام کا جام تو پلاتی ہو گی۔
سوچ کر کچھ پھر بے وجہ مسکراتی ہو گی۔
پھر میرے خیال کو جھٹلا کر دل کو سمجھاتی ہو گی
اک گوہرِ نایاب چپکے سے اس کے رخسار پہ بہتا ہو گا۔
بڑی بے دردی سے رگڑ کر وہ پھر اس یاد کو مٹاتی ہو گی۔

53