بے باک محبت کی قسمت میں ہی مرنا ہے
معصوم ہے دل جو بھی آخر وہ بکھرنا ہے
افراطِ صنم سے ہے کچھ بھی تو نہیں حاصل
حاصل ہے جو کچھ بھی وہ بھی تو بچھڑنا ہے
بھاگے ہی چلو لوگو! اس زیست کے رستے پر
رکنا یہاں غلطی ہے چلنا ہی ابھرنا ہے
غم یار کا ہو یا ہو سنسار کا غم کوئی
اس آر بھی رحلت ہے اس پار بھی مرنا ہے
نمناک کلیجہ ہے چپ چاپ ہے دھڑکن بھی
چشمم نومیدیِ پُراسرار پنپنا ہے
رماز رموزوں سے ہوتا نہیں کچھ حاصل
کر یار سے بات اگر کچھ حاصل کرنا ہے
یہ تارے فلک پر جو ہنستے ہیں چمکتے ہیں
ان نے بھی تو آخر کو رونا ہے بجھنا ہے
کاشی نے مقدر کے کچھ نقش سنوارے ہیں
کچھ نقش ہیں دھندلے سے ان کو ابھی بھرنا ہے

0
31