گومگو کے ہجوم میں پکا بنا ہوا ہوں میں
ابلکوں کے ہی واسطے شیشہ بنا ہوا ہوں میں
تار یہ میرے ذہن کے الجھے ہیں اس قدر کہ اب
تاروں سے اک جہان کا نقشہ بنا ہوا ہوں میں
دنیا یہ مشکبو نہیں، خم نہیں و سبو نہیں
دنیا کی تلخ گود میں بچہ بنا ہوا ہوں میں
باتیں جنھوں کی بے حیا، عرف جنھوں کے میں میں ہیں
ایسی ہی ننگی سوچ کو خدشہ بنا ہوا ہوں میں
قاتلِ بیداد ہوں سفاک ہوں صیاد ہوں کے
نظروں میں صرف آپ کی اچھا بنا ہوا ہوں میں
مجھ کو ڈرا رہے ہیں سب میرے ہی سائے سے عبث
نظروں میں لوگ باگ کی چرچا بنا ہوا ہوں میں

32