اب بھی دھڑکن میں ترا درس کہیں باقی ہے |
اور دہن پر وہ ترا لمس کہیں باقی ہے |
اب بھی آتی ہے تری خوشبو مرے پہلو سے |
آج بھی مجھ میں ترا لمس کہیں باقی ہے |
اب بھی سوتے میں ہڑبڑا کے میں اٹھ جاتا ہوں |
اب بھی یادوں کی تری حبس کہیں باقی ہے |
اب بھی آنکھوں میں امڈتی ہے وہ حسرت کی پون |
اب بھی سانسوں میں ترا نمس کہیں باقی ہے |
اب بھی آہٹ پہ سماعت یہ تو چونک اٹھتی ہے |
اب بھی لگتا ہے ترا لمس کہیں باقی ہے |
اب بھی روتیں ہیں نگاہیں تری آغا کیونکر |
اب بھی کیا درد کا وہ رقص کہیں باقی ہے |
اب بھی جیتا ہوں میں امید کے دریوزہ کی طرح |
اب بھی کاشی میں ترا نمس کہیں باقی ہے |
معلومات