دوبدو بات ہو، بات ہو رات ہو، رات ہی رات میں ساری طے بات ہو
دن چڑھے جو اٹھیں کسمساتے ہوئے مسکراتے ہوئے ہات میں ہات ہو
کب تلک ہم جئیں اس جہاں کے لیے، ہات دیکھو بندھے ہیں خدا کے لیے
گفتگو جو کریں ہم گھڑی دو گھڑی، وہ گھڑی دو گھڑی پیار کی بات ہو
کوبکو پھیلی ہو عشق کی داستاں، داستاں یہ ہماری ہر اک گام ہو
اوجِ افلاک پر بات اپنی چلے، جھومیں گائیں فرشتے تو کیا بات ہو
گھات ہم نے لگائی ہے اس کے یہاں ، وہ کھڑا سامنے ہے مہکتا ہوا
وہ چہکتا ہوا ہاں لہکتا ہوا آ کے سینے لگے تو ختم گھات ہو
اس کے گالوں کی لالی پہ پھیلی حیا، پانی بھرتی ہے چرنوں سے اس کے وفا
اس کی آنکھوں کا عالم میں اب کیا کہوں، گمشدہ آپ ہوں آپ کی ذات ہو
درد و رنج و الم اور داغِ جگر، تجھ کو ہے کیا خبر او مرے بے خبر
دل ہے زخمی مرا باخدا اس قدر، خون میں ڈوبا گویا خرابات ہو
پاس بیٹھے ہیں وہ منھ پھلائے ہوئے، بدگمانی سی دل میں بسائے ہوئے
بات ہم سے وہ کرنے کو راضی نہیں، ایسے میں اب بتاؤ تو کیا بات ہو
رات اکثر ہی کہتی ہے ہس کر مجھے یار تیرا محبت شناسا نہیں
دور رہتا ہے وہ پاس آتا نہیں، پاس آؤ جو شرمندہ یہ رات ہو
تیرے تل کی قسم ہے جو بائیں طرف، تیرے رخسار پر ہاں دمکتا ہوا
ہے یہ سب سے جدا ہے یہ سب سے الگ ، ہم نا چومیں اسے تو خرافات ہو
دوریاں آپ سے ہیں گوارا نہیں، ہم سہارا طلب تھوڑی خیرات ہو
ہے یہ کاشی ترا باخدا ہے ترا، دیکھو اس کو بھی تھوڑی تو خیرات ہو

78