اپنی تمام ہو گئی حسرت مبارکاں
آئی وصال و ہجر کی ساعت مبارکاں
موسوم ہو گئی ہے یہ آشوب سے نگہ
چہرے تمام ان کے، علالت مبارکاں
فرصت سے دیکھ لیتے ہیں ہم ان کو اوٹ سے
آنکھیں ہیں دل سے کہہ رہیں صحبت مبارکاں
تھوڑا سا ہو گیا ہے سرِ بزم ذکرِ یار
سب ہس کے کہتے ہیں درِ وحشت مبارکاں
تربت پہ میری رو رہا ہے وہ جو آن کر
کہتے ہیں سب فرشتے یہ ساعت مبارکاں
عالم کو جو ثبات ہے آوارگی سے ہے
ورنہ تو دو ہی دن میں قیامت مبارکاں
کاشی یہیں پہ بات کو تو رفع دفع کر
تم ان سے یہ کہو ابھی ہجرت مبارکاں

168