پیار کی رت میں وصال راتیں گھر میں میرے مہکتی ہیں
فاختائیں یہ فرحتوں کی میرے آنگن میں کوکتی ہیں
چاند راتوں میں چھپ کے دیکھے ہے ترے چہرے کی روشنی کو
کرنیں سورج کی تڑکے تڑکے پاؤں ترے چومتی ہیں
اٹھا دی نظریں جس جانب اس جانب سویر کر دی
حشر ہو گا وہ بدنِ مخمل کہ آنکھیں جس کی روشنی ہیں
تیری لگن ہے تری گفتگو ، مہک اٹھے جامِ جم اور سبو
نگاہِ ساقی میں تو وہ چڑیا کہ صبحیں جس سے چہکتی ہیں
کاشی کاری ہے ذوق میرا طلب تیری ہے شوق مرا
اک تو پورا میں کر لیتا ہوں دوجے کو آنکھیں ترستی ہیں

77