وہ سردیوں کی لمبی کہر آلود راتوں میں گھر کی منڈیر پہ بیٹھی |
میرے خیالوں کو دوام کا جام تو پلاتی ہو گی۔ |
سوچ کر کچھ پھر بے وجہ مسکراتی ہو گی۔ |
پھر میرے خیال کو جھٹلا کر دل کو سمجھاتی ہو گی |
اک گوہرِ نایاب چپکے سے اس کے رخسار پہ بہتا ہو گا۔ |
بڑی بے دردی سے رگڑ کر وہ پھر اس یاد کو مٹاتی ہو گی۔ |
وہ سردیوں کی لمبی کہر آلود راتوں میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ |
اٹھ کے منڈیر سے چھت پہ ٹہلے گی وہ |
سرد ہواؤں کو آرام سے سہ لے گی وہ |
اٹھائے گی نظریں پھر چاند پہ ٹکا دے گی |
دھندلے چاند کو دیکھتے ہوئے |
صورت کو میری پھر چاند میں سما دے گی |
جھپکے گی پلکیں صورت کو گم پائے گی میری |
روئے گی دل میں اور دل سے آواز آئے گی میری |
"میں بھی تھا تجھ سنگ منڈیر پہ بیٹھا" |
"پھر ساتھ تیرے تھا چھت پہ ٹہلا" |
"صورت میں نے بھی دیکھی تھی چاند میں تیری" |
"اٹھا میرے بھی دل میں تھا جوار بھاٹا" |
"خیالوں کی مستی اور پھر سناٹا" |
لیکن کیوں ہم یوں۔۔۔۔۔۔۔ |
خیالوں میں مل کر دل کو ناشاد کرتے ہیں |
خود کو کیوں ہم اتنا بیداد کرتے ہیں |
چلو ان خیالوں سے خود کو آزاد کرتے ہیں |
مل جاتے ہیں یا جدا ہوتے ہیں |
حقوقِ عشق یونہی ادا ہوتے ہیں |
نصیب ہوا وصل تو بہت اچھا |
گر ہوئے جدا تو یوں ہے کرنا |
تم بیٹھنا منڈیر پر سرد راتوں میں اور خیالوں کو آباد رکھنا |
خیال کچھ انجانے جذبوں کے، کچھ پہلی محبت کے |
کچھ خیال بے خیالی کے، کچھ رسیلی کنواری چاہت کے |
خدارا!! ان خیالوں کو شاد رکھنا، آباد رکھنا۔۔۔۔۔۔ |
مگر اب کی بار مجھے ان خیالوں سے آزاد رکھنا۔ |
کیونکہ۔۔۔۔ |
اب کی بار گر تو نے سوچا مجھے |
یاتیری دردیلی یاد نے نوچا مجھے |
تو یقین جانو خود کو سمیٹ نہیں پاؤں گا میں |
میں خود کو وقف درد کر دوں گا |
میں زندگی غم کے سپرد کر دوں گا۔ |
معلومات