ہم کو معصوم کار لگتے ہیں
پر وہ سانپوں کے یار لگتے ہیں
ان سے کیا شکوہ بھی کریں گے ہم
وہ تو خود شاہِ دار لگتے ہیں
ارے وحشت میں آ کے دیکھ کبھی
شبنمی ریگ زار لگتے ہیں
بین کرتی ہے جس پہ ویرانی
ہم وہ اجڑا مزار لگتے ہیں
کوئی دیکھے مرے بھی جان و دل
بند صدیوں کے جار لگتے ہیں
غم سے اپنی بھی ہے سلام دعا
غم مرے ناتہ دار لگتے ہیں
دن مرے یہ یونہی اداسی میں
بیٹھے بیٹھے ہی پار لگتے ہیں
وہ ستم گار مجھ کو لگتے نہیں
وہ تو دل کا قرار لگتے ہیں

51