یہ داغ داغ اُجالا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
یہ وہ سحر تو نہیں جس کی آرزو لے کر
چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں
فلک کے دشت میں تاروں کی آخری منزل
کہیں تو ہوگا شبِ سست موج کا ساحل

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


1
1754
کہوں کیا رنگ اس گل کا، اہا ہا ہا اہا ہا ہا
ہوا رنگیں چمن سارا، اہا ہا ہا اہا ہا ہا
نمک چھڑکے ہے وہ کس کس مزے سے دل کے زخموں پر
مزے لیتا ہوں میں کیا کیا، اہا ہا ہا، اہا ہا ہا
خدا جانے حلاوت کیا تھی آبِ تیغِ قاتل میں
لبِ ہر زخم ہے گویا، اہا ہا ہا، اہا ہا ہا

مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن


13
2581
مرے غنیم نے مجھ کو پیام بھیجا ہے
کہ حلقہ زن ہیں مرے گرد لشکری اس کے
فصیل شہر کے ہر برج ہر منارے پر
کماں بہ دست ستادہ ہیں عسکری اس کے
☆ ☆ ☆
وہ برق لہر بجھا دی گئی ہے جس کی تپش

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


0
1
607
یا رب! دلِ مسلم کو وہ زندہ تمنّا دے​
جو قلب کو گرما دے، جو روح کو تڑپا دے​
​ پھر وادیِ فاراں کے ہر ذرّے کو چمکا دے​
پھر شوقِ تماشا دے، پھر ذوقِ تقاضا دے​
​ محرومِ تماشا کو پھر دیدۂ بینا دے​
دیکھا ہے جو کچھ میں نے اوروں کو بھی دِکھلا دے​

مفعول مفاعیلن مفعول مفاعیلن


3
2487
مرے خدا مجھے اتنا تو معتبر کر دے
میں جس مکان میں رہتا ہوں اس کو گھر کر دے
یہ روشنی کے تعاقب میں بھاگتا ہوا دن
جو تھک گیا ہے تو اب اس کو مختصر کر دے
میں زندگی کی دعا مانگنے لگا ہوں بہت
جو ہو سکے تو دعاؤں کو بے اثر کر دے

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


1
573
شرف کے شہر میں ہر بام و در حسینؑ کا ہے
زمانے بھر کے گھرانوں میں گھر حسینؑ کا ہے
فراتِ وقتِ رواں! دیکھ سوئے مقتل دیکھ
جو سر بلند ہے اب بھی وہ سر حسینؑ کا ہے
زمین کھا گئی کیا کیا بلند و بالا درخت
ہرا بھرا ہے جو اب بھی شجر حسینؑ کا ہے

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


5
2657
ستم سکھلائے گا رسمِ وفا، ایسے نہیں ہوتا
صنم دکھلائيں گے راہِ خدا، ایسے نہیں ہوتا
گنو سب حسرتیں جو خوں ہوئی ہیں تن کے مقتل میں
مرے قاتل حسابِ خوں بہا ، ایسے نہیں ہوتا
جہانِ دل میں کام آتی ہیں تدبیریں نہ تعزیریں
یہاں پیمانِ تسلیم و رضا ایسے نہیں ہوتا

مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن


3
2622
بنا ہے کون، الٰہی، یہ کارواں سالار؟
کہ اہلِ قافلہ مبہوت ہیں، دِرا خاموش
یہ کس کے رعب نے گُدّی سے کھینچ لی ہے زباں؟
کہ باوقار ہیں لب بستہ، بے نوا خاموش
لدا ہوا ہے سروں پر مہیب سناٹا
ہوا کے پاؤں میں زنجیر ہے، فضا خاموش

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


1
1577
عجب گھڑی تھی
کتاب کیچڑ میں گر پڑی تھی
چمکتے لفظوں کی میلی آنکھوں میں الجھے آنسو بلا رہے تھے
مگر مجھے ہوش ہی کہاں تھا
نظر میں اک اور ہی جہاں تھا
نئے نئے منظروں کی خواہش میں اپنے منظر سے کٹ گیا ہوں

مَفاعلاتن مَفاعلاتن مَفاعلاتن مَفاعلاتن


5
1512
حیرت ہے، آہِ صبح کو ساری فضا سنے
لیکن زمیں پہ بت، نہ فلک پر خدا سنے
فریادِ عندلیب سے کانپے تمام باغ
لیکن نہ گل، نہ غنچہ، نہ بادِ صبا سنے
خود اپنی ہی صداؤں سے گونجے ہوئے ہیں کان
کوئی کسی کی بات سنے بھی تو کیا سنے

مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن


2
2239
بارے دنیا میں رہو غم زدہ یا شاد رہو
ایسا کچھ کر کے چلو یاں کہ بہت یاد رہو
عشق پیچے کی طرح حسن گرفتاری ہے
لطف کیا سرو کی مانند گر آزاد رہو
ہم کو دیوانگی شہروں ہی میں خوش آتی ہے
دشت میں قیس رہو کوہ میں فرہاد رہو

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن


643
کس سے اظہار مدعا کیجے
آپ ملتے نہیں ہیں کیا کیجے
ہو نہ پایا یہ فیصلہ اب تک
آپ کیجے تو کیا کیا کیجے
آپ تھے جس کے چارہ گر وہ جواں
سخت بیمار ہے دعا کیجے

فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


0
670
عمر گزرے گی امتحان میں کیا
داغ ہی دیں گے مجھ کو دان میں کیا
میری ہر بات بے اثر ہی رہی
نقص ہے کچھ مرے بیان میں کیا
مجھ کو تو کوئی ٹوکتا بھی نہیں
یہی ہوتا ہے خاندان میں کیا

فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


360
ٹھیک ہے خود کو ہم بدلتے ہیں
شکریہ مشورت کا چلتے ہیں
ہو رہا ہوں میں کس طرح برباد
دیکھنے والے ہاتھ ملتے ہیں
ہے وہ جان اب ہر ایک محفل کی
ہم بھی اب گھر سے کم نکلتے ہیں

فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


0
295
ایذا دہی کی داد جو پاتا رہا ہوں میں
ہر ناز آفریں کو ستاتا رہا ہوں میں
اے خوش خرام پاؤں کے چھالے تو گن ذرا
تجھ کو کہاں کہاں نہ پھراتا رہا ہوں میں
اک حسن بے مثال کی تمثیل کے لیے
پرچھائیوں پہ رنگ گراتا رہا ہوں میں

مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن


1113
ایک ہی مژدہ صبح لاتی ہے
دھوپ آنگن میں پھیل جاتی ہے
رنگ موسم ہے اور باد صبا
شہر کوچوں میں خاک اڑاتی ہے
فرش پر کاغذ اڑتے پھرتے ہیں
میز پر گرد جمتی جاتی ہے

فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


223
تو بھی چپ ہے میں بھی چپ ہوں یہ کیسی تنہائی ہے
تیرے ساتھ تری یاد آئی کیا تو سچ مچ آئی ہے
شاید وہ دن پہلا دن تھا پلکیں بوجھل ہونے کا
مجھ کو دیکھتے ہی جب اس کی انگڑائی شرمائی ہے
اس دن پہلی بار ہوا تھا مجھ کو رفاقت کا احساس
جب اس کے ملبوس کی خوشبو گھر پہنچانے آئی ہے

بحرِ ہندی/ متقارب مثمن مضاعف


0
624
ابھی اک شور سا اٹھا ہے کہیں
کوئی خاموش ہو گیا ہے کہیں
ہے کچھ ایسا کہ جیسے یہ سب کچھ
اس سے پہلے بھی ہو چکا ہے کہیں
تجھ کو کیا ہو گیا کہ چیزوں کو
کہیں رکھتا ہے ڈھونڈھتا ہے کہیں

فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


0
185
اپنے سب یار کام کر رہے ہیں
اور ہم ہیں کہ نام کر رہے ہیں
تیغ بازی کا شوق اپنی جگہ
آپ تو قتل عام کر رہے ہیں
داد و تحسین کا یہ شور ہے کیوں
ہم تو خود سے کلام کر رہے ہیں

فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


0
322
تمہارا ہجر منا لوں اگر اجازت ہو
میں دل کسی سے لگا لوں اگر اجازت ہو
تمہارے بعد بھلا کیا ہیں وعدہ و پیماں
بس اپنا وقت گنوا لوں اگر اجازت ہو
تمہارے ہجر کی شب ہائے کار میں جاناں
کوئی چراغ جلا لوں اگر اجازت ہو

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


959