دہر میں نقشِ وفا وجہِ تسلی نہ ہوا
ہے یہ وہ لفظ کہ شرمندہِ معنی نہ ہوا
سبزہِ خط سے ترا کاکلِ سرکش نہ دبا
یہ زمرد بھی حریفِ دمِ افعی نہ ہوا
میں نے چاہا تھا کہ اندوہِ وفا سے چھوٹوں
وہ ستمگر مرے مرنے پہ بھی راضی نہ ہوا

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن


1442
شمارِ سبحہ،" مرغوبِ بتِ مشکل" پسند آیا
تماشائے بہ یک کف بُردنِ صد دل، پسند آیا
بہ فیضِ بے دلی، نومیدیِ جاوید آساں ہے
کشائش کو ہمارا عقدہِ مشکل پسند آیا
ہوائے سیرِ گل، آئینہِ بے مہریِ قاتل
کہ اندازِ بخوں غلطیدنِ بسمل پسند آیا

مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن


1637
دھمکی میں مر گیا، جو نہ بابِ نبرد تھا
"عشقِ نبرد پیشہ" طلب گارِ مرد تھا
تھا زندگی میں مرگ کا کھٹکا لگا ہوا
اڑنے سے پیشتر بھی، مرا رنگ زرد تھا
تالیفِ نسخہ ہائے وفا کر رہا تھا میں
مجموعۂ خیال ابھی فرد فرد تھا

مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن


0
2693
شوق، ہر رنگ رقیبِ سر و ساماں نکلا
قیس تصویر کے پردے میں بھی عریاں نکلا
زخم نے داد نہ دی تنگئ دل کی یا رب
تیر بھی سینۂ بسمل سے پَر افشاں نکلا
بوئے گل، نالۂ دل، دودِ چراغِ محفل
جو تری بزم سے نکلا، سو پریشاں نکلا

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن


2479
دل مرا سوزِ نہاں سے بے محابا جل گیا
آتشِ خاموش کی مانند، گویا جل گیا
دل میں ذوقِ وصل و یادِ یار تک باقی نہیں
آگ اس گھر میں لگی ایسی کہ جو تھا جل گیا
میں عدم سے بھی پرے ہوں، ورنہ غافل! بارہا
میری آہِ آتشیں سے بالِ عنقا جل گیا

فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن


0
1526
ہے کہاں تمنّا کا دوسرا قدم یا رب
ہم نے دشتِ امکاں کو ایک نقشِ پا پایا

فاعِلن مفاعیلن فاعِلن مفاعیلن


0
1391
ایک دن باغ میں جا کر، چشمِ حیرت زدہ وا کر، جامۂ صبر قبا کر، طائرِ ہوش اڑا کر شوق کو راہ نما کر، مرغِ نظارہ اڑا کر،
دیکھی رنگت جو چمن کی، خوبی نسرین و سمن کی شکل غنچوں کے دہن کی، تازگی لالہ کے تن کی، تازگی گل کے بدن کی، کشت سبزے کی، ہری تھی، نہر بھی لہر بھری تھی،
ہر خیاباں میں تری تھی، ڈالی ہر گل کی ہری تھی، خوش نسیمِ سحری تھی،
سرو و شمشاد وصنوبر، سنبل و سوسن وعرعر، نخل میوے سے رہے بھر، نفسِ باد معنبر، درو دیوار معطر، کہیں قمری تھی مطوق،
کہیں انگور معلق، نالے بلبل کے مدقق، کہیں غوغائے کی بق بق، اس قدر شاد ہوا دل، مثل غنچے کے گیا کھل
غم ہوا کشتہ و بسمل شادی خاطر سے گئی مل، خرمی ہو گئی حاصل، روح بالیدہ ہو آئی، شان قدرت نے دکھائی جان سے جان میں آئی، باغ کیا تھا گویا اللہ نے اس باغ میں جنت کو اتارا

فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن


2646
نقش فریادی ہے کس کی شوخیِ تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا
کاو کاوِ سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ
صبح کرنا شام کا، لانا ہے جوئے شیر کا
جذبہِ بے اختیارِ شوق دیکھا چاہیے
سینہِ شمشیر سے باہر ہے دم شمشیر کا

فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن


1
4848
بیتے لمحے کل کی باتیں یاد آئیں
وہ رنگوں کی سب برساتیں یاد آئیں
دن دیکھا تو چہرہ تیرا یاد آیا
رات کے دیکھے زلف کی راتیں یاد آئیں
بیٹا ایم اے کر کے گھر میں بیٹھ گیا
اپنے وقت کی چار جماعتیں یاد آئیں

بحرِ ہندی/ متقارب مسدس مضاعف


0
1
876
گُلوں کی پالکی میں ہے بہاروں کی وہ بیٹی ہے
چہِیتی چاند کی روشن سِتاروں کی وہ بیٹی ہے
ہماری بیٹیاں سب کے لیئے تکرِیم والی ہیں
کِسی بھی ایک کی عِفّت سو چاروں کی وُہ بیٹی ہے
وُہ چلتی ہے تو راہوں میں سُریلے ساز بجتے ہیں
کِسی اُجلی ندی کے شوخ دھاروں کی وہ بیٹی ہے

ہزج مثمن ثالم


0
104
میں جہاں جاؤں تعاقب میں ہے رسوائی مری
مجھ کو محفل میں کیے رکھتی ہے تنہائی مری
مشورہ اپنے معالج کا رکھا بالائے طاق
آج گھائل کر گئی خود سے مسیحائی مری
ڈھونڈتا ہوں نقص خالق کی ہر اک تخلیق میں
باعثِ شرمندگی ہے پھر تو زیبائی مری

فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن


0
90
مجھے تجھ سے بچھڑ جانے کا دکھ ہے
کلی کے کھل کے مرجھانے کا دکھ ہے
مجھے کل تو نے ٹھہرایا تھا لیکن
جہاں کو آج ٹھکرانے کا دکھ ہے
وفا پانے کی دل میں آرزو تھی
تماشا بن کے رہ جانے کا دکھ ہے

مفاعیلن مفاعیلن فَعُولن


145