پیوست ہے جو دل میں، وہ تیر کھینچتا ہوں |
اک ریل کے سفر کی تصویر کھینچتا ہوں |
گاڑی میں گنگناتا مسرور جا رہا تھا |
اجمیر کی طرف سے جے پور جا رہا تھا |
تیزی سے جنگلوں میں یوں ریل جا رہی تھی |
لیلیٰ ستار اپنا گویا بجا رہی تھی |
خورشید چھپ رہا تھا رنگیں پہاڑیوں میں |
طاؤس پر سمیٹے بیٹھے تھے جھاڑیوں میں |
کچھ دُور پر تھا پانی، موجیں رکی ہوئی تھیں |
تالاب کے کنارے شاخیں جھکی ہوئی تھیں |
لہروں میں کوئی جیسے دل کو ڈبو رہا تھا |
میں سو رہا ہوں، ایسا محسوس ہو رہا تھا |
اک موجِ کیف پرور دل سے گزر رہی تھی |
ہر چیز دلبری سے یوں رقص کر رہی تھی |
تھیں رخصتی کرن سے سب وادیاں سنہری |
ناگاہ چلتے چلتے جنگل میں ریل ٹھہری |
کانٹوں پہ خوبصورت اک بانسری پڑی ہے |
دیکھا کہ ایک لڑکی میدان میں کھڑی ہے |
زاہد فریب، گل رخ، کافر، دراز مژگاں |
سیمیں بدن، پری رخ، نوخیز، حشر ساماں |
خوش چشم، خوبصورت، خوش وضع، ماہ پیکر |
نازک بدن، شکر لب، شیریں ادا، فسوں گر |
کافر ادا، شگفتہ، گل پیرہن، سمن بُو |
سروِ چمن، سہی قد، رنگیں جمال، خوش رو |
گیسو کمند، مہ وش، کافور فام، قاتل |
نظارہ سوز، دلکش، سرمست، شمعِ محفل |
ابرو ہلال، مے گوں، جاں بخش، روح پرور |
نسریں بدن، پری رخ، سیمیں عذار، دلبر |
آہو نگاہ، نورس، گلگوں، بہشت سیما |
یاقوت لب، صدف گوں، شیریں، بلند بالا |
غارت گرِ تحمل، دل سوز، دشمنِ جاں |
پروردۂ مناظر، دوشیزۂ بیاباں |
گلشن فروغ، کمسن، مخمور، ماہ پارا |
"دلبر کہ در کفِ اُو موم است سنگِ خارا" |
ہر بات ایک افسوں ہر سانس ایک جادو |
قدسی فریب مژگاں، یزداں شکار گیسو |
صحرا کی زیب و زینت، فطرت کی نورِ دیدہ |
برسات کے ملائم تاروں کی آفریدہ |
چہرے پہ رنگِ تمکیں، آنکھوں میں بے قراری |
ایمائے سینہ کوبی، فرمانِ بادہ خواری |
لوہا تپانے والی جلووں کی ضوفشانی |
سکّے بٹھانی والی اٹھتی ہوئی جوانی |
ڈوبے ہوئے سب اعضا حُسنِ مناسبت میں |
پالی ہوئی گلوں کے آغوشِ تربیت میں |
حُسنِ ازل ہے غلطاں شاداب پنکھڑی میں |
یا جان پڑ گئی ہے جنگل کی تازگی میں |
حوریں ہزار دل سے قربان ہو گئی ہیں |
رنگینیاں سمٹ کر 'انسان' ہو گئی ہیں |
چینِ ستمگری سے ناآشنا جبیں ہے |
میں کون ہوں؟ یہ اُس کو معلوم ہی نہیں ہے |
ہر چیز پر نگاہیں حیرت سے ڈالتی ہے |
رہ رہ کے اڑنے والی چادر سنبھالتی ہے |
آنچل سنبھالنے میں یوں بل سے کھا رہی ہے |
گویا ٹھہر ٹھہر کر انگڑائی آ رہی ہے |
کچھ دیر تک تو میں نے اُس کو بغور دیکھا |
غش کھا رہی تھی عقبیٰ، چکرا رہی تھی دنیا |
گاڑی سے پھر اتر کر اُس کے قریب آیا |
طوفانِ بے خودی میں پھر یہ زباں سے نکلا |
اے درسِ آدمیّت، اے شاعری کی جنت |
اے صانعِ ازل کی نازک ترین صنعت |
اے روحِ صنفِ نازک، اے شمعِ بزمِ عالم |
اے صبحِ روئے خنداں، اے شامِ زلفِ برہم |
اے تُو کہ تیری نازک ہستی میں کام آئی |
قدرت کی انتہائی تخئیلِ دلربائی |
بستی میں تُو جو آئے، اک حشر سا بپا ہو |
آبادیوں میں ہلچل، شہروں میں غلغلہ ہو |
رندانِ بادہ کش کے ہاتوں سے جام چھوٹیں |
تسبیحِ شیخ الجھے، توبہ کے عزم ٹوٹیں |
نظروں سے اتِّقا کے رسم و رواج اتریں |
زہّاد کے عمامے، شاہوں کے تاج اتریں |
آنکھیں ہوں اشک افشاں، نالے شرر فشاں ہوں |
کیا کیا نہ شاعروں کے ملبوس دھجیاں ہوں |
شہروں کے مہ وشوں پر اک آسمان ٹوٹے |
پروردۂ تمدن عشووں کی نبض چھوٹے |
اس سادگی کے آگے نکلیں دلوں سے آہیں |
جھک جائیں دلبروں کی خود ساختہ نگاہیں |
تیری ادا کے آگے شرما کے منہ چھپائیں |
ناپے ہوئے کرشمے، تولی ہوئی ادائیں |
تیری نظر کی رَو سے ہو جائیں خستہ و گم |
مشق و مزاولت کے پالے ہوئے تبسم |
امن و اماں کے رخ کو بے آب و رنگ کر دے |
دنیا کو حسن تیرا میدانِ جنگ کر دے |
کتنی ہی قسمتوں کے بدلے فلک نوشتے |
خوں اور دوستی کے کٹ جائیں کتنے رشتے |
تصنیف ہوں ہزاروں چبھتے ہوئے فسانے |
اِن انکھڑیوں کی زد پر کانپیں شراب خانے |
تیرے پجاریوں میں میرا بھی نام ہوتا |
اے کاش جنگلوں میں میرا قیام ہوتا |
یہ بَن، یہ گل، یہ چشمے، مجھ سے قریب ہوتے |
شاعر کے زیرِ فرماں یہ سب رقیب ہوتے |
کیوں، میری گفتگو سے حیرت فروش کیوں ہے؟ |
اے زمزموں کی دیوی اتنی خموش کیوں ہے؟ |
بجنے لگیں وفا کی محفل میں شادیانے |
ہاں دے لبوں کو جنبش، اے سرمدی ترانے |
یوں چپ ہے، مجھ سے گویا کچھ کام ہی نہیں ہے |
یہ وہ ادا ہے جس کا کچھ نام ہی نہیں ہے |
سننا تھا یہ کہ ظالم اِس طرح مسکرائی |
فریاد کی نظر نے، ارماں نے دی دُہائی |
عشوہ، جبیں پہ لے کر دل کی امنگ آیا |
چہرے پہ خون دوڑا، آنکھوں میں رنگ آیا |
شرما کے آنکھ اٹھائی، زلفوں پہ ہات پھیرا |
اتنے میں رفتہ رفتہ چھانے لگا اندھیرا |
چمکا دیا حیا نے ہر نقشِ دلبری کو |
دانتوں میں یوں دبایا چاندی کی آرسی کو |
سُن کر مری مچلتی آنکھوں کی داستانیں |
اُس کی نگاہ میں بھی غلطاں ہوئی زبانیں |
شرما کے پھر دوبارہ زلفوں پہ ہات پھیرا |
دیکھا تو چھا چکا تھا میدان پر اندھیرا |
کچھ جسم کو چُرایا، کچھ سانس کو سنبھالا |
کاندھے پہ نرم آنچل انگڑائی لے کے ڈالا |
تاریک کر کے، میری آنکھوں میں اک زمانہ |
جنگل سے سر جھکا کر ہونے لگی روانہ |
ہونے لگی روانہ، ارماں نے سر جھکایا |
دل کی مثال کانپا رہ رہ کے بن کا سایا |
بے ہوش ہو چلا میں، سینے سے آہ نکلی |
اتنے میں رات لے کر قندیلِ ماہ نکلی |
مڑ کر جو میں نے دیکھا، امید مر چکی تھی |
پٹری چمک رہی تھی، گاڑی گزر چکی تھی |
بحر
رمل مثمن مشکول مسکّن
مفعول فاعِلاتن مفعول فاعِلاتن |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات