ایذا دہی کی داد جو پاتا رہا ہوں میں
ہر ناز آفریں کو ستاتا رہا ہوں میں
اے خوش خرام پاؤں کے چھالے تو گن ذرا
تجھ کو کہاں کہاں نہ پھراتا رہا ہوں میں
اک حسن بے مثال کی تمثیل کے لیے
پرچھائیوں پہ رنگ گراتا رہا ہوں میں

مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن


1417
ایک ہی مژدہ صبح لاتی ہے
دھوپ آنگن میں پھیل جاتی ہے
رنگ موسم ہے اور باد صبا
شہر کوچوں میں خاک اڑاتی ہے
فرش پر کاغذ اڑتے پھرتے ہیں
میز پر گرد جمتی جاتی ہے

فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


1439
تو بھی چپ ہے میں بھی چپ ہوں یہ کیسی تنہائی ہے
تیرے ساتھ تری یاد آئی کیا تو سچ مچ آئی ہے
شاید وہ دن پہلا دن تھا پلکیں بوجھل ہونے کا
مجھ کو دیکھتے ہی جب اس کی انگڑائی شرمائی ہے
اس دن پہلی بار ہوا تھا مجھ کو رفاقت کا احساس
جب اس کے ملبوس کی خوشبو گھر پہنچانے آئی ہے

بحرِ ہندی/ متقارب مثمن مضاعف


1165
ابھی اک شور سا اٹھا ہے کہیں
کوئی خاموش ہو گیا ہے کہیں
ہے کچھ ایسا کہ جیسے یہ سب کچھ
اس سے پہلے بھی ہو چکا ہے کہیں
تجھ کو کیا ہو گیا کہ چیزوں کو
کہیں رکھتا ہے ڈھونڈھتا ہے کہیں

فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


551
اپنے سب یار کام کر رہے ہیں
اور ہم ہیں کہ نام کر رہے ہیں
تیغ بازی کا شوق اپنی جگہ
آپ تو قتل عام کر رہے ہیں
داد و تحسین کا یہ شور ہے کیوں
ہم تو خود سے کلام کر رہے ہیں

فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


0
963
تمہارا ہجر منا لوں اگر اجازت ہو
میں دل کسی سے لگا لوں اگر اجازت ہو
تمہارے بعد بھلا کیا ہیں وعدہ و پیماں
بس اپنا وقت گنوا لوں اگر اجازت ہو
تمہارے ہجر کی شب ہائے کار میں جاناں
کوئی چراغ جلا لوں اگر اجازت ہو

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


1291
آدمی وقت پر گیا ہوگا
وقت پہلے گزر گیا ہوگا
وہ ہماری طرف نہ دیکھ کے بھی
کوئی احسان دھر گیا ہوگا
خود سے مایوس ہو کے بیٹھا ہوں
آج ہر شخص مر گیا ہوگا

فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


0
611
سر ہی اب پھوڑیے ندامت میں
نیند آنے لگی ہے فرقت میں
ہیں دلیلیں ترے خلاف مگر
سوچتا ہوں تری حمایت میں
روح نے عشق کا فریب دیا
جسم کو جسم کی عداوت میں

فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


0
611
چلو بادِ بہاری جا رہی ہے
پیا جی کی سواری جا رہی ہے
شمالِ جاودانِ سبز جاں سے
تمنا کی عماری جا رہی ہے
فغاں اے دشمنِ دارِ دل و جاں
مری حالت سدھاری جا رہی ہے

مفاعیلن مفاعیلن فَعُولن


0
1228
حالتِ حال کے سبب حالتِ حال ہی گئی
شوق میں کچھ نہیں گیا شوق کی زندگی گئی
تیرا فراق جان جاں عیش تھا کیا مرے لیے
یعنی ترے فراق میں خوب شراب پی گئی
تیرے وصال کے لیے اپنے کمال کے لیے
حالتِ دل کہ تھی خراب اور خراب کی گئی

مفتَعِلن مفاعِلن مفتَعِلن مفاعِلن


1579
اک ہنر ہے جو کر گیا ہوں میں
سب کے دل سے اتر گیا ہوں میں
کیسے اپنی ہنسی کو ضبط کروں
سن رہا ہوں کہ گھر گیا ہوں میں
کیا بتاؤں کہ مر نہیں پاتا
جیتے جی جب سے مر گیا ہوں میں

فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


556
بے قراری سی بے قراری ہے
وصل ہے اور فراق طاری ہے
جو گزاری نہ جا سکی ہم سے
ہم نے وہ زندگی گزاری ہے
نہ گھرے کیا ہوئے کہ لوگوں پر
اپنا سایہ بھی اب تو بھاری ہے

فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


0
891
دل جو ہے آگ لگا دوں اس کو
اور پھر خود ہی ہوا دوں اس کو
جو بھی ہے اس کو گنوا بیٹھا ہے
میں بھلا کیسے گنوا دوں اس کو
تجھ گماں پر جو عمارت کی تھی
سوچتا ہوں کہ میں ڈھا دوں اس کو

فاعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن


0
1154
اگر کج رو ہیں انجم آسماں تیرا ہے یا میرا
مجھے فکرِ جہاں کیوں ہو جہاں تیرا ہے یا میرا
اگر ہنگامہ ہائے شوق سے ہے لا مکاں خالی
خطا کس کی ہے یا رب لا مکاں تیرا ہے یا میرا
اسے صبحِ ازل انکار کی جرأت ہوئی کیوں کر
مجھے معلوم کیا وہ رازداں تیرا ہے یا میرا

مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن


0
875
خودی وہ بحر ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں
تو آب جو اسے سمجھا اگر تو چارہ نہیں
طلسم گنبد گردوں کو توڑ سکتے ہیں
زجاج کی یہ عمارت ہے سنگ خارہ نہیں
خودی میں ڈوبتے ہیں پھر ابھر بھی آتے ہیں
مگر یہ حوصلۂ مرد ہیچ کارہ نہیں

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


0
1041
اے فنا انجام انساں کب تجھے ہوش آئے گا
تیر گی میں ٹھوکریں آخر کہاں تک کھائے گا
اس تمرد کی روش سے بھی کبھی شرمائے گا
کیا کرے گا سامنے سے جب حجاب اٹھ جائے گا
کب تک آخر اپنے رب کی نعمتیں جھٹلائے گا
☆ ☆ ☆

فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن


949
کیا شعلۂ طرّار وہ اللہُ غنی ہے
کیا لرزشِ تابندگیِ سیم تنی ہے
رشکِ مہِ کنعاں ہے غزالِ خُتنی ہے
افشاں ہے کہ آمادگیِ دُر شکنی ہے
تاروں میں بپا غلغلۂ سینہ زنی ہے
کیا گل بدنی گل بدنی گل بدنی ہے

مفعول مفاعیل مفاعیل فَعُولن


1
1411
نہ وہ راتیں نہ وہ باتیں نہ وہ قصّہ کہانی ہے
فقط اک ہم ہیں بستر پر پڑے اور ناتوانی ہے
بھلا میں ہاتھ دھو بیٹھوں نہ اپنی جان سے کیوں کر
خرام اس کے میں اک آبِ رواں کی سی روانی ہے
تو یوں بے پردہ ہو جایا نہ کر ہر ایک کے آگے
نیا عالم ہے تیرا اور نئی کافر جوانی ہے

مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن


1
2556
آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں
غالب صریر ِخامہ نوائے سروش ہے

مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن


1463
رہا گر کوئی تا قیامت سلامت
پھر اک روز مرنا ہے حضرت سلامت
جگر کو مرے عشقِ خوں نابہ مشرب
لکھے ہے 'خداوندِ نعمت سلامت'
علیَ اللّرغمِ دشمن، شہیدِ وفا ہوں
مبارک مبارک سلامت سلامت

فَعُولن فَعُولن فَعُولن فَعُولن


1
1157