یہ فلسفہ بود بَست کیا ہے کہ دم بدم مستحل ہو جائے
|
یہی عناصر کی زندگی ہے کہ کل میں جز منتقل ہو جائے
|
تلاش منزل کو موت جانو خیال منزل نہ دل میں رکھنا
|
یہ موت کیا ہے سکون دل ہے سکوں میں جو مستقل ہو جائے
|
تو ٹوٹ کر ٹوٹ جائے پھر سے ثبات ہے بے قرار دل کو
|
ہے زندگی کا پیام خاکی تو نور میں مندمل ہو جائے
|
|