یہ فلسفہ بود بَست کیا ہے کہ دم بدم مستحل ہو جائے
یہی عناصر کی زندگی ہے کہ کل میں جز منتقل ہو جائے
تلاش منزل کو موت جانو خیال منزل نہ دل میں رکھنا
یہ موت کیا ہے سکون دل ہے سکوں میں جو مستقل ہو جائے
تو ٹوٹ کر ٹوٹ جائے پھر سے ثبات ہے بے قرار دل کو
ہے زندگی کا پیام خاکی تو نور میں مندمل ہو جائے
چراغ دل کا یونہی جلے گا تو زندگی بھی رواں رہے گی
خدا کرے نور حق سے جلنا بجھے تو پھر مشتعل ہو جائے
تو مجھ میں اس طرح سےہے شامل وجود میں ہوں تو روح تم ہو
جو بھی محبت میں جاوداں ہو مری طرح مضمحل ہو جائے
فساد کو تم زوال جانو کہ زندگی تو عروج میں ہے
کہ فلسفہ بود و بِست کو گر تو جان لے منفعل ہو جائے

1
50
اس کلام نے مجھے حیرت میں ڈال رکھا ہے
آپ نے
کمال ہی کردیا