تازہ ہیں زخم دل کے جگر بھی لہو لہو
پہلے ہے شام سرخ سحر بھی لہو لہو
اس بد حواس دل کو سمجھایا اس طرح
میں ہی نہیں ہوں غم میں دہر بھی لہو لہو
قاتل سے دل گرفتہ و بیمار کا گلہ
خنجنر زہر میں تر کا اثر بھی لہو لہو
مضمون جب لہو ہے لہو ہے لہو لہو
دنیا لہو میں ہے تو بشر بھی لہو لہو
اب واسطہ نہ ساتھ کوئی مے کدہ سے ہے
چھوڑا جو دیر ہم نے حرم بھی لہو لہو
مولا سنے زمیں پر نہ ہی بت کہیں سنے
دیون لہو میں باپ بسر بھی لہو لہو

0
20